جرمنی میں ملک بدری کے سخت تر قوانین زیر بحث

برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) جرمنی میں حال ہی میں ایک مقامی ٹرین میں چاقو کے مہلک حملے کے بعد مجرمانہ ریکارڈ کے حامل غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے بحث میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔

جرمنی کی ایک ٹرین میں حال ہی میں چاقو کے مہلک حملے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کے بعد سے مختلف سطحوں اور حلقوں میں ملک بدری کے قوانین اور ان کے اطلاق پر زور و شور سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس واردات کا ملزم، ایک بے وطن فلسطینی، اپنے مجرمانہ ریکارڈ کے باوجود جرمنی میں رہ رہا تھا۔

چاقو حملہ کب اور کہاں ہوا؟

دو ہفتے قبل جرمنی کے شمالی بندرگاہی شہر ہیمبرگ کی طرف رواں ایک علاقائی ٹرین میں سوار ایک شخص نے مسافروں پر چاقو کے وار کرتے ہوئے دو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ مبینہ مجرم تینتیس سالہ ابراہیم اے کے بارے میں پولیس کو معلوم تھا کیونکہ اُس پر پہلے بھی حملوں کے متعدد الزامات تھے۔

وہ ابھی حال ہی میں نظر بندی سے رہا ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمنی کی سینٹر لفٹ سوشل ڈیموکریٹ سیاستداں اور وزیر داخلہ نینسی فیئزر نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور اس موقع پر ایک بیان میں کہا،”یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ ایک ایسا مجرم ہمارے ملک میں ابھی تک موجود ہے؟‘‘

ملک بدری کے لیے جرمنی کے قوانین

جرمن قانون کے تحت غیر ملکی شہریوں کو اسی صورت میں ملک بدر کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی جرم کیا ہو یا ان کی درجہ بندی دہشت گرد تنظیم کے رکن کے طور پر کی گئی ہو۔ ایسے غیر ملکیوں کو حراست میں لیا جا سکتا ہے اور پھر انہیں ان کے آبائی ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ جرمنی کی وفاقی ریاستیں عملی ملک بدری کی ذمہ دار ہیں۔

لیکن غزہ پٹی سے تعلق رکھنے والے مگر ایک بے وطن شخص کی حیثیت سے ابراہیم اے کو ملک بدر کرنا ناممکن تھا۔ نقل مکانی کے امور کے ایک ماہر اور محقق جیرالڈ کناؤس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”کسی ایسے شخص کو، جس کا کوئی وطن نہ ہو یا وہ بے وطن ہو ملک بدر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ملک بدر ہونے والے فرد کے لیے کسی ملک کا باشندہ ہونا ضروری ہے تاکہ ملک بدری کے بعد وہ واپس اُس ملک میں جا سکے۔ اس معاملے میں ابراہیم اے کو ملک بدری کے بعد قبول کرنے والی کوئی ریاست ہی نہیں ہے۔‘‘

جن غیر ملکی شہریوں کو جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا، انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر ایسے کیسز میں، ان کی پناہ کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے، جس کے بعد ان کی ملک بدری کی جاتی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں گزشتہ سال کے آخر تک تقریبا تین لاکھ چار ہزار افراد کو اُس فہرست میں شامل کیا گیا تھا، جنہیں ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔

نئی جرمن وفاقی حکومت کی پالیسی

جرمنی کی بائیں بازو کی مرکزی مخلوط حکومت، جو محض ایک سال قبل اقتدار میں آئی ہے، نے ملک بدری کی کارروائی کے سلسلے میں ایک پیش رفت کا اعلان کیا تھا۔ اس کا اولین مقصد یہ تھا کہ وہ مجرموں اور ممکنہ دہشت گردوں کو زیادہ تیزی سے ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اس قسم کے اعلانات پر عمل نہیں ہوا۔

صوبے بویریا کی مرکزی دائیں بازو کی جماعت کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) کی اپوزیشن کی ایک قانون ساز آندریا لنڈہولس کے بقول،” وفاقی حکومت کی طرف سے ملک بدریوں میں پیش رفت کا اعلان افسوس ناک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔‘‘

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ سال تقریبا تیرہ ہزار افراد کو ملک بدر کیا گیا، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق جارجیا، البانیہ، سربیا، مالڈووا اور پاکستان سے تھا۔ آندریا لنڈہولس کا کہنا ہے،” ملک بدری دراصل ہمارے سیاسی پناہ اور رہائش سے متعلق قانون کا لازمی نتیجہ ہے۔‘‘

لیکن لیفٹ پارٹی یا بائیں بازو کی ایک قانون ساز کلارا بُنگر ملک بدر ہونے والے افراد کے بارے میں فکر مند ہیں، جن کا تعلق جنگ زدہ اور سیاسی جبر یا غربت کے شکار ممالک سے ہے۔ ان کا کہنا تھا،” ایسے افراد کے ساتھ ملک بدری کے دوران ہمیں بہت زیادہ پولیس تشدد اور تضحیک آمیز رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘

ملک بدری کے عمل میں رکاوٹیں

غیر ملکیوں کی ملک بدری یا ان کی وطن واپسی کے سلسلے کے آگے نہ بڑھنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً پناہ کے متلاشی اور درخواست دہندگان اور ان کے وکلاء ملک بدری کے احکامات کے خلاف قانونی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ مسترد شدہ پناہ کی درخواستوں والے اپنا کیس ایک ”ہارڈ شپ کمیشن‘‘کے پاس لے جا سکتے ہیں، جو بدلے میں جرمن وزیر داخلہ کو ملک بدری کو معطل کرنے کی سفارش کر سکتا ہے۔

مہاجرین کو ان ممالک میں جلاوطن نہیں کیا جا سکتا، جہاں ان کی جانوں کو جنگ یا ظلم و جبرکے خطرات لاحق ہوں۔ ایسا کرنے سے انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کی خلاف ورزی ہوگی۔ نیز کسی قسم کی ذہنی یا جسمانی بیماری بھی ملک بدری کو روکنے کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔

حکام کو یہ تصدیق کرنا ہوتی ہے کہ وہ صحیح شخص کو ملک بدر کر رہے ہیں اور اس کے لیے انہیں سفری یا شناختی دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر فیصلے میں تاخیر کا سامنا ہوتا ہے۔

جس ملک کے لیے ان افراد کی ملک بدری کی جاتی ہے، وہ ملک ایسے افراد کی وطن واپسی میں تاخیر یا اسے قبول کرنے سے صاف انکار بھی کر سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں