پشاور مسجد حملے پر شدت پسند تنظیموں میں اختلاف: ٹی ٹی پی کا ذمہ داری قبول کرنے پر ابہام کیا نئی حکمت عملی ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی پولیس لائن مسجد میں 30 جنوری کو ہونے والے دھماکے پر شدت پسند گروہوں کے مابین ذمہ داری قبول کرنے کے معاملے پر اختلاف سامنے آیا ہے۔

اس واقعے کی ذمہ داری ابتدا میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک گروپ کی جانب سے قبول کی گئی تھی تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس کی مذمت کے بعد ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ نے اس واقعے سے برات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

تاہم پاکستان میں سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدا میں ذمہ داری قبول کرنا مگر بعدازاں افغان طالبان کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس سے برات کا اظہار کرنا ٹی ٹی پی کی حکمت عملی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

تاہم ٹی ٹی پی سمیت متعدد شدت پسند گروہوں نے جہاں اس واقعے کی مذمت کی ہے وہیں سخت گیر شدت پسند تنطیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے حامیوں نے اس کو سراہا ہے۔

خودکش حملے کا نشانہ بننے والی مسجد پشاور شہر کے ہائی سیکورٹی زون اور حساس علاقے یعنی پولیس لائن میں واقع تھی جس کے پاس پولیس ہیڈ کوارٹر اور محکمہ انسداد دہشت گردی اور خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر بھی موجود ہیں۔

اس حملے میں 102 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ابتدائی طور پر اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے دو کمانڈروں نے قبول کی تھی لیکن بعدازاں ٹی ٹی پی کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کرنے کی تردید کی گئی۔

شدت پسند تنطیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے حامیوں نے القاعدہ کی جانب سے حملے کی مذمت کے جواب میں کہا کہ اس خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی پولیس کے اہلکار تھے۔

تاہم القاعدہ سیمت دیگر اہم شدت پسند تنظیموں کے جہادی علما نے اس حملے پر تحفطات کا اظہار کیا ہے جبکہ ایک بااثر جہادی عالم ابو محمد المقدسی نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ مساجد پر حملے ممنوع ہیں، چاہے ان میں کوئی بھی عبادت کرتا ہو۔ افغان طالبان نے بھی اس حملے کی مذمت کی۔

ابتدائی ابہام

حملے کے بعد ابتدائی طور پر انٹرنیٹ پر شدت پسندوں کے درمیان اس بات پر ابہام پیدا ہوا کہ آیا ٹی ٹی پی کے دو کمانڈروں کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے ابتدائی دعوؤں کے بعد ٹی ٹی پی اس کی ذمہ دار ہے، مگر اسے بعد میں مسترد کر دیا گیا۔

شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے حامی ٹیلی گرام چینل ’وکالت بریقا‘ نے ٹی ٹی پی کمانڈروں کے دعوؤں کو القاعدہ اور اس کے اتحادی افغان طالبان کے حامیوں پر طنز کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس میں دونوں تنظیموں میں اتحاد کے وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا گیا کہ ٹی ٹی پی ایسے حملے کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے جس کی افغان طالبان نے مذمت کی ہو۔

دریں اثنا القاعدہ کے حامی ٹیلی گرام گروپ ’اخبار المسلمین‘ پر ایک صارف نے کہا کہ اس سے قطع نظر کے اس کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے یا نہیں اسے ذاتی طور پر اس حملے پر سخت اعتراض ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے باقاعدہ طور پر اس حملے کی ذمہ داری کی تردید کے بعد القاعدہ کے حامی کچھ مطمئن نظر آئے۔

القاعدہ کے حامی ٹیلی گرام گروپ ’منتدا الفجر الاسلامی‘ پر القاعدہ کے ایک ممتاز ہمدرد نے بھی اس حملے کی مذمت کی۔

اردن میں مقیم جہادی عالم ابو محمد المقدسی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی کا ایک بیان شیئر کیا جس میں گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کی تردید کی گئی تھی۔

خراسانی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی نے اس حملے پر اس لیے اعتراض کیا کیونکہ یہ ٹی ٹی پی کے ’منشور اور رہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہے جو مساجد، مدارس اور جنازہ گاہوں پر حملوں سے منع کرتے ہیں۔‘

کیا یہ ٹی ٹی پی کی حکمت عملی ہو سکتی ہے؟

سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا کہ ذمہ داری قبول کر کے اس سے برات کا اظہار کرنا ٹی ٹی پی کی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایک گروپ کی طرف ذمہ داری قبول کی گئی اور اس کے کافی دیر بعد ٹی ٹی پی کا متضاد بیان سامنے آیا۔

’ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ کی جانب سے ذمہ داری قبول نہ کرنے کا بیان افغان طالبان کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کرنے کے کچھ دیر بعد آیا، جو ان کی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی کہہ چکی ہے کہ وہ عوامی مقامات کو ٹارگٹ نہیں کریں گے مگر ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ یہ سب کام کرتے رہے ہیں، خاص طور پر خراسانی گروپ جس نے ابتدا میں پشاور دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا ذمہ داری قبول کرنے کا معاملہ ٹی ٹی پی میں اندرونی اختلافات کو ظاہر کرتا ہے؟

عامر رانا کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔

’مختلف معاملات پر اختلاف رائے ہوتا ہے اور چونکہ گذشتہ ایک سال کے دوران بہت سے شدت پسند گروپ اپنی شرائط پر ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو معلوم ہے کہ کچھ مختلف کرنے سے وہ افغان طالبان کی حمایت سے محروم ہو سکتے ہیں۔‘

عبدالولی گروپ کیا ہے؟

یاد رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری ابتدا میں عبدالولی گروپ نے قبول کی تھی۔ عامر رانا کے مطابق یہ وہی گروپ ہے جس کو خالد خراسانی لیڈ کر رہے تھے اور احسان اللہ احسان بھی اسی گروہ کا حصہ تھا جو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور بعدازاں فرار ہو گیا۔

جب سنہ 2014 میں پاکستان میں آئی ایس کا ظہور ہوا تو یہ گروپ نام نہاد دولت اسلامیہ سے متاثر تو بہت تھا مگر کبھی یہ لوگ اس تنظیم میں شامل نہیں ہوئے۔ مگر فضل اللہ سے اختلافات کے بعد انھوں نے اپنا علیحدہ گروپ بنا لیا تھا۔

علیحدہ گروپ بنانے کے بعد انھوں نے اُسی طرز پر حملے کیے جیسے داعش یا نام نہاد دولت اسلامیہ کرتی ہے، مثلاً انھوں نے لاہور میں چرچ پر بڑا حملہ کیا، لاہور میں واہگہ بارڈر پر ہونے والا حملہ، گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والا حملے سمیت انھوں نے پشاور اور کوئٹہ میں اسی نوعیت کے کافی حملے کیے۔ اس گروپ نے حملے کے انداز میں وہی حکمت عملی اپنائی جو دولت اسلامیہ کی تھی۔

عامر رانا کے مطابق ’اگر کہا جائے کہ ٹی ٹی پی کے اندر موجود گروہوں میں سے یہ سب سے زیادہ ٹرینڈ اور شدت پسندی کی کارروائیوں کا ماہر گروپ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔‘

وسیع پیمانے پر شدت پسند تنظیموں کی مذمت

المقدسی سمیت دیگر مشہور جہادی علما نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’جرم‘ قرار دیا۔

اس شدت پسند عالم نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں مسجد پر حملہ اور درجنوں نمازیوں کا قتل ایک ایسا برا عمل ہے جس سے ہم لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں۔‘ انھوں نے ایک مشہور جہادی عالم کی کتاب کا حوالہ دیا جس میں مساجد پر حملوں کے خلاف خبردار کیا گیا تھا۔

شام میں مقیم سعودی عالم عبداللہ المحیسینی نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان لوگوں پر ’لعنت‘ بھیجی جو اس جرم میں ملوث تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجرموں اور ان کی مالی امداد کرنے والوں کو ’اکھاڑ پھینکنا اور ان کا مقابلہ کرنا‘ چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’عبادت کرنے والوں کو قتل کرنا سنگین گناہ ہے۔‘

القاعدہ عام طور پر مساجد اور عبادت گاہوں پر حملوں پر پابندی عائد کرتی ہے جبکہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ باقاعدگی سے مساجد پر حملوں کا دعویٰ کرتی ہے، جن میں زیادہ تر شیعہ مسلک کی مساجد ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں