پنجاب اور سندھ میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملوں میں تیزی: ’یہ ایک منظم مہم لگتی ہے‘

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ سندھ میں گذشتہ رات یعنی 3 اور چار فروری کی درمیانی شب ضلع میرپور خاص کے علاقے گوٹھ چوہدری جاوید احمد میں نامعلوم افراد نے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے میناروں کو توڑ دیا ہے اور عبادت گاہ میں موجود اشیا کو آگ لگا دی۔

گذشتہ ایک ماہ کے دوران اس نوعیت کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جن میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل کہ ان واقعات سے متعلق ہم احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان اور ماہرین سے تفصیل سے بات کریں پہلے سندھ اور پنجاب میں ایسے واقعات پر نظر دوڑاتے ہیں جن میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران یا تو احمدی عبادت گاہوں کے مینار توڑے گئے یا پھر انھیں آگ لگا دی گئی۔ ان میں سے کچھ واقعات کی ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں مگر یہ سلسلہ تھم نہیں سکا ہے۔

احمدیہ کمیونٹی نے چند واقعات میں مقامی پولیس کے ملوث ہونے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔

2023 میں احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملے

رواں برس دس جنوری کی رات وزیر آباد میں موتی بازار کے مقام پر احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہ کے مینار توڑے گئے۔ ترجمان احمدیہ کمیونٹی کے مطابق یہ مینار خود پولیس نے توڑے تھے۔ تاہم پولیس نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

اسی طرح 18 جنوری کو 15 سے 20 نامعلوم افراد دن تین بجے مارٹن روڈ کراچی میں سیڑھی لگا کر اندر داخل ہوئے اور سامنے کے دو میناروں کو نقصان پہنچایا۔ اطلاع پر پولیس موقع پر پہنچی تو نامعلوم افراد وہاں سے فرار ہو گئے۔

اسی طرح رواں ماہ دو فروری کو صدر کراچی میں احمدیہ ہال کے میناروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کیس کی ایف آئی آر کے مطابق دس سے 15 نامعلوم افراد عبادت گاہ میں اندر داخل ہوئے احمدیہ ہال کو نقصان پہنچایا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق یہ عبادت گاہ اور اس پر موجود مینار سنہ 1947 میں پاکستان بننے سے قبل قائم کی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں اس حملے میں ملوث پانچ افراد کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس حملے میں ملوث افراد نے مقامی افراد کو بھی جمع کیا اور احمدیہ کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیزی پھیلائی اور اس حملے کو روکنے والے پولیس والوں پر بھی تشدد کیا، جس سے وہ زخمی بھی ہوئے۔

اسی طرح فروری کی رات نور نگر ضلع عمر کوٹ میں چند نامعلوم افراد ایک عبادت گاہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور تیل چھڑک کر جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کو آگ لگا دی گئی۔ جس سے عبادت گاہ کے ہال میں موجود تمام صفیں اور کرسیاں وغیرہ جل گئیں۔

خیال رہے کہ 3 فروری کی ہی رات گوٹھ جاوید احمد ضلع میر پور خاص میں نامعلوم ملزمان نے مینار توڑے اور عبادت گاہ کو آگ لگائی۔

گذشتہ برس چار جون کو پنڈ دادن خان (جہلم) میں احمدی عبادت گاہ کے مینار توڑے گئے۔ احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان کے مطابق 21 جون کو گوجرانوالہ میں باغبانپورہ کے مقام پر پولیس نے مقامی افراد کی شکایت پر زبردستی ایک عبادت گاہ کے مینار کور کروائے۔

ترجمان کے مطابق مقامی لوگوں کی شکایت پر 7 دسمبر کو پولیس نے یہ مینار خود توڑ بھی دیے۔ تاہم پولیس نے بعد میں ہیومن رائٹس کمیشن میں مینار توڑنے والے واقعے میں اپنے کردار کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

31 اگست 2022 کو ضلع جہلم میں متیال نامی جگہ پر ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد 13 ستمبر کو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں گوجرہ کے مقام پر ایسا ہی ہوا۔ ترجمان احمدیہ کمیونٹی کے مطابق ایک ماہ بعد 12 اکتوبر کو اوکاڑہ شہر کے ایف بلاک میں پولیس نے مینار کور کرائے۔

’یہ منظم مہم لگتی ہے‘

جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو گذشتہ کچھ عرصے سے سندھ اور پنجاب میں ہدف بنایا جا رہا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ پنجاب میں کچھ واقعات میں خود پولیس بھی ملوث تھی اور ایسے واقعات کے مقدمات تک درج نہیں ہو سکے۔

ترجمان کے مطابق سندھ میں شر پسند عناصر کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ خود اندر داخل ہو کر مینار توڑ رہے ہیں۔

عامر محمود کے مطابق ’ان واقعات میں ایک دم تیزی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ منظم مہم ہے اور ان واقعات میں کسی گروپ کی پشت پناہی صاف دکھائی دے رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ سنہ 2014 میں اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت کی تھی مگر اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔

عامر محمود کے مطابق آئین کے آرٹیکل 20 تمام شہریوں کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ان پر عبادت گاہ کو مسجد نہ کہنے کی پابندی عائد ہے مگر طرز تعمیر سے متعلق کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے اور اب یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ ہمارے حقوق کی ضامن بنے۔

وکیل یاسر لطیف ہمدانی کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ احمدیہ کمیونٹی کی حقوق کی جہاں تک بات آتی ہے تو وہ انھیں وہ حقوق نہیں دیے جاتے جو اقلیتوں کو حاصل ہیں۔

ان کے مطابق اس حوالے سے بنایا جانا والا قانون ہی غلط ہے کیونکہ مینار تو ہر مذاہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں پر ہوتے ہیں۔

یاسر لطیف کا کہنا ہے کہ سنہ 1993 میں ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے عام شہریوں کو بھی جذبات مجروح ہونے کی صورت میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف راست اقدام کی اجازت دے رکھی ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں تو احمدیہ جماعت کو نہ مذہبی آزادی حاصل ہے اور نہ وہ تبلیغ کر سکتے ہیں۔

’نئے مذہبی گروہوں کے قیام سے ایسے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی‘

رابعہ محمود ایک صحافی اور ریسرچر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ممتاز قادری کی جانب سے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے واقعے کے بعد احمدیہ کمیونٹی کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ جہاں پہلے احمدیوں کے خلاف تشدد کے واقعات ہوتے تھے اب ان کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں نئی مذہبی و سیاسی گروہوں کے قیام کے بعد احمدی کمیونٹی کے خلاف پرتشدد واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

رابعہ کے مطابق اوکاڑہ اور چناب نگر میں احمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے والوں کا تعلق بھی مذہبی سیاسی جماعت سے تھا۔ ان کے مطابق جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر جس طرح حملے ہو رہے ہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان میں ملوث افراد اس طرح کی مذہبی جماعتوں کے نظریے سے متاثر ہیں۔

رابعہ کے مطابق گذشتہ پانچ پانچ سات برس میں بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے گروہ اور ان سے متاثر کچھ نئے کردار بھی سامنے آئے ہیں جو احمدیہ کمیونٹی کے خلاف ایسے واقعات میں پیش پیش ہیں۔

ان کے خیال میں یہ واقعات منظم انداز میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں