ارشد شریف قتل کیس میں کینیا تعاون نہیں کر رہا، تحقیقاتی ٹیم

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کیس پر ازخود نوٹس کی کارروائی کے دوران عدالت نے اب تک کی پیش رفت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے میں اقوام متحدہ کو بھی شامل کرے۔

پاکستانی صحافیارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (ایس جے آئی ٹی) کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کینیا میں متعلقہ حکام تحقیقات کے سلسلے میں مطلوبہ تعاون فراہم نہیں کر رہے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اویس احمد نے یہ بیان پیر کے روز ارشد شریف کے قتل سے متعلق سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران دیا۔

’رسائی نہیں دی گئی‘

سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی وفد نے اس از خود نوٹس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے اس قتل کے سلسلے میں اب تک ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ کینیا کے حکام نے ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کو ‘ضرورت سے زیادہ طاقت‘ کا استعمال کرنے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کے کسی بھی رکن کو کسی بھی فرد سے تفیتش اور نہ ہی جائے واردات کا معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ایس جے آئی ٹی کے ارکان کینیا میں اس قتل سے متعلق کوئی بھی ٹھوس مواد یا شواہد اکٹھے نہیں کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے جنوری میں کینیا کے صدر سے فون پر اس قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں تعاون کی درخواست کی تھی تاہم اس سرکاری وکیل کے بقول وہ ابھی تک کینیا کی طرف سے جواب کے منتظر ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایس جے آئی ٹی کے ارکان کو کینیا میں ارشد شریف کے میزبان رہنے والے بھائیوں خرم اور وقار تک بھی رسائی فراہم نہیں کی گئی۔ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کینیا ایک دوست ملک ہے اور یہ کہ پاکستان اس کے خلاف ایسا کوئی بھی یکطرفہ قدم نہیں اٹھا سکتا، جو دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر کرنے کا سبب بنے۔

’اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے‘

اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کو بھی شامل کرے۔ انہوں نے تفتیشی ٹیم سے استفسار کیا کہ کیا اُن حالات کا پتہ چلایا گیا ہے، جن کی وجہ سے ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے یہ بھی پوچھا کہ ارشد شریف کے موبائل فون اور دیگر سامان کہاں ہیں؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ارشد شریف کے موبائل اور آئی پیڈ کینیا کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے پاس ہیں جب کہ ان کا باقی سامان موصول ہو چکا ہے۔

عدالت کی برہمی

چیف جسٹس نے ارشد شریف کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ لیک ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں تمام ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جس نے بھی لیک کی ہمیں پتا کر کے بتائیں۔

چیف جسٹس نے کیس سے متعلق اہم حقائق کا پتہ لگانے کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے دو سینئر افسران پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو سراہا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ارشد شریف کا قتل بین الاقوامی کرداروں کے ذریعے ”منصوبہ بند اور ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا شاخسانہ تھا، نہ کہ غلط شناخت کا معاملہ، جیسا کہ کینیا کی پولیس دعویٰ کر رہی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم پہلو ہیں ایک مقامی اور دوسرا غیر ملکی ہے۔ دفترِ خارجہ اصل صورتحال کا کھوج لگائے اور ریاست کو آگاہ کرے۔

سرکاری ٹیم نے تحقیقات میں مزید پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ جمع کرانے کے لیے عدالت سے ایک ماہ کی مہلت طلب کی۔ تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ مہلت کی مدت زیادہ ہوگی۔

ارشد شریف کو گزشتہ برس اکتوبر میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے مضافات میں دوران سفر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل پرانسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور سول سوسائٹی نے شدید صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس قتل کی مکمل تحقیقات اور حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں