افغان طالبان رہنماؤں کی ایک دوسرے پر تنقید، اندرونی اختلافات سامنے آنے لگے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں طالبان کی سینئر قیادت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور اب عوامی اجتماعات میں رہنما ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں۔

طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے گزشتہ ہفتے ہی خوست میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران اختیارات میں اجارہ داری پر مرکزی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ “آپ کے خیالات اور افکار نے ہم پر اس حد تک غلبہ پالیا ہے کہ حکمرانی کا پورا نظام بدنام ہو گیا ہے اور اس صورتِ حال کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔”

انہوں نے طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ ایسی پالیسیوں کو ترک کیا جائے جو حکومت اور عوام کے درمیان خلیج کا سبب بن رہی ہیں، اس طرح کے طرز عمل سے مخالفین کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے۔

سراج الدین حقانی کا بظاہر اشارہ سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ کی طرف تھا جنہوں نے خواتین پر تعلیم سمیت ان کے ملازمت کرنے پر بھی پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

سراج الدین حقانی کا کہنا تھا “اب ہم اقتدار میں ہیں۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے انہیں ریلیف فراہم کریں۔اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں تو ہماری حکومت تادیر رہے گا۔”

افغان حکومت کےخواتین کے تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت پر پابندی کے حالیہ فیصلوں پر عالمی برادری نے شدید تنقید کی تھی۔ غیر ملکی سفارت کاروں کے مطابق وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کا شمار طالبان کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی اٹھانے کے حق میں ہیں۔

‘امیر کو عوامی اجتماعات میں بدنام نہ کریں’

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کا نام لیے بغیر اُن کی تنقید کا جواب دیا ہے۔

اتوار کو کابل میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ “اسلامی اقدار ہمیں پابند کرتی ہیں کہ ہم عوامی اجتماعات میں اپنے امیر، کسی وزیر یا حکومتی افسر پر تنقید یا انہیں بدنام نہ کریں۔‘‘

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ” آپ ان سے براہِ راست رابطہ کریں اور اپنی تنقید ذاتی طور پر ان تک پہنچائیں تاکہ اسے کوئی سن نہ لے۔”

افغان میڈیا کے مطابق طالبان حکومت کے نائب وزیرِ انصاف عبد الغنی فائق کا کابل میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ اگر کوئی حکومت میں شامل ہے اور وہ حکومت کے خلاف جاتا ہے تو اس عمل کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

حالیہ عرصے کے دوران طالبان اندرونی اختلافات کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے اسے مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم حکومت کی حالیہ پالیسیوں پر بعض رہنماؤں سمیت سینئر ترین وزیر کی تنقید کے بعد طالبان رہنماؤں کے درمیان پالیسیوں پر اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔

عالمی برادری کو افغان خواتین پر پابندیوں اور انسانی حقوق سے متعلق طالبان کی پالیسیوں پر شدید تحفظات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت کو اقتدار میں آئے 18 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

سیاسی تجزیہ کار اور افغانستان کے سابق حکومتی عہدیدار طارق فرحدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی ناامیدی کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے درمیان موجود اصلاح پسندوں کو اندر سے مضبوط ہونا ہو گا تاکہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت سمیت انہیں تمام اسلامی حقوق دیے جائیں۔

ان کے بقول اس کے لیے کسی اور کو نہیں بلکہ طالبان کو ہی آگے بڑھنا ہوگا کیوں کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں