مغربی کنارے میں 10 ہزار آباد کاری یونٹس کی تعمیر کے سخت خلاف ہیں، امریکی وزیر خارجہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا ہے ہم اسرائیل کے کل مبینہ طور پر تقریباً 10,000 آبادکاری یونٹس کو آگے بڑھانے اور مغربی کنارے میں نو چوکیوں کو جو پہلے اسرائیلی قانون کے تحت غیر قانونی تھیں قانونی حیثیت دینے کی ایک کارروائی کے آغاز کے فیصلے سے سخت پریشان ہیں۔

بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ پچھلی ڈیموکریٹک اور ریپبلکن انتظامیہ کی طرح، ہم ایسے یک طرفہ اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، جو کشیدگی میں اضافہ اور مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی حل کے امکانات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

بلنکن نے بیان میں مزید کہا کہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، کوئی بھی چیز جو ہمیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی تصور سے دور کرتی ہے وہ اسرائیل کی دیر پا سلامتی، ایک یہودی اور جمہوری ریاست کے طور پر اس کی شناخت، اور سلامتی، آزادی کے مساوی اقدامات کے ہمارے وژن کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے وقار کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اضافی اقدامات سے گریز کریں جو خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتے ہیں اور ایسے عملی اقدامات کریں جن سے فلسطینی عوام کی فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جا سکے۔

اس سے قبل کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل نےزیر کنٹرول مغربی کنارے پر نو یہودی بستیوں کی اجازت دے دی ہےجس میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی گھروں کی تعمیر بھی معاہدے کا حصہ ہوگی۔

نئی منظور شدہ بستیاں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی امن معاہدے کی راہ میں ممکنہ طور پر رکاوٹ پیدا کریں گی کیونکہ یہودی بستیاں اس زمین پرقائم کی جائیں گی جو فلسطینی چاہتے ہیں کہ جو ان کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں ۔ بیشتر بین الاقوامی برادری ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔

یہ اجازت نو منتخب وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے پہلے اقدامات میں سے ایک ہے۔زیر کنٹرول مشرقی یروشلم میں حالیہ حملوں میں کم از کم 10 اسرائیلی مارے گئے ہیں۔

ادھر عرب اور اسلامی ممالک کے درجنوں رہنماؤں اور اعلیٰ حکام نے اتوار کے روز خبردار کیا کہ یروشلم اور زیر کنٹرول مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں سے علاقائی انتشار بڑھ سکتا ہے کیونکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عرب لیگ نے قاہرہ میں ہونے والے اس اجلاس کی میزبانی کی تھی اور اس میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور فلسطینی صدر محمود عباس سمیت متعدد وزرائے خارجہ اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

یہ اعلیٰ سطحی اجلاس یروشلم اور پڑوسی اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے میں برسوں سے جاری لڑائی کے مہلک ترین ادوار میں سے ایک کے درمیان منعقد کیا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے اعدادو شمار کے مطابق اس سال اب تک45 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جب کہ فلسطینیوں نے بھی اسرائیل کے 10 افراد کو ہلاک کیا ہے۔

اجلاس کے مقررین نے اپنے بیانات میں یروشلم اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے ’’یک طرفہ اقدامات‘‘ کی مذمت کی۔ان اقدامات میں مکانات کو مسمار کرنا اور بستیوں کی توسیع شامل ہے۔

انہوں نے شہر کے اس متنازع مقام پر اسرائیلی حکام کے دوروں کی بھی مذمت کی جو یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مقدس ہے اور اکثر اوقات اسرائیل فلسطینی بدامنی کا مرکز رہا ہے۔

اسرائیل کی حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یروشلم کے مقدس مقامات پر صورت حال کو برقرار رکھنے کے مطالبات کو سنا۔ عہدیداروں نے اسلام کے تیسرے مقدس مقام مسجد اقصیٰ کے محافظ کے طور پر اردن کے کردار کی حمایت کا بھی اظہار کیا۔

یہ مسجد یروشلم کے پرانے شہر میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنائی گئی ہے جو یہودیوں کے لیے سب سے مقدس مقام ہےاور وہ اسے ٹیمپل ماؤنٹ کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ یہ قدیم زمانے میں یہودی عبادت گاہوں کی جگہ تھی۔

اسرائیل کے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں اس جگہ کنٹرول کے بعد یہودیوں کو وہاں جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔

اسرائیل تمام یروشلم پر اپنے غیر منقسم دارالحکومت کے طور پر دعویٰ کرتا ہے جب کہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت بنانے کے خواہاں ہیں۔

مصر کے صدر السیسی نے یروشلم کو فلسطینی مقصد کیلئے ’’ریڑھ کی ہڈی ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے کسی بھی اسرائیلی اقدام کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کو حل کرنے کے لیے ایسے اقدام مستقبل کے مذاکرات پر ’’منفی اثر‘‘ ڈالیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات تنازع کے دو ریاستی حل کی طویل عرصے سے تلاش میں رکاوٹ بنیں گےجس سے ’’دونوں فریق اور پورے مشرق وسطیٰ کے لیے مشکل اور سنگین آپشنز سامنے آئیں گے۔‘‘

السیسی کا ملک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا عرب ملک تھا اور اس نے عالمی برادری سے ’’دو ریاستی حل کو تقویت دینے اور امن عمل کی بحالی کے لیے سازگار حالات کی تشکیل ‘‘ کا مطالبہ کیا۔

شاہ عبداللہ دوم نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ میں اپنی خلاف ورزیاں اور دراندازی بند کرے۔انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینی کاز پر پیش رفت کے بغیر خطہ امن، استحکام اور خوشحالی سے نہیں رہ سکتا۔

پین عرب تنظیم کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط نے بھی خبردار کیا کہ مسجد اقصیٰ کو تقسیم کرنے اور اس کے عرب اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی کوششیں ’’نہ ختم ہونے والی بدامنی اور تشدد کو ہوا دیں گی۔‘‘

فلسطینی صدر عباس نے کہا کہ ان کی انتظامیہ تنازع کے دو ریاستی حل کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے اداروں سے قرارداد کا مطالبہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ریاست فلسطین اپنے لوگوں کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی عدالتوں اور اداروں سے رابطے جاری رکھے گی۔خطے میں پر تشدد لڑائی خطے کو ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے جہاں صورت حال کو حل کرنے کی ضرورت ہے ۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے گزشتہ ماہ مصری، اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ کشیدگی کم کریں۔

اسرائیل میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی نئی انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہےاور ان کی اس انتظامیہ میں متعدد سیاست دان فلسطین کی آزادی کی مخالفت کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں