ایرانی فورسز نے سیستان بلوچستان کے سرحدی علاقے میں سینکڑوں گدھے ہلاک کر دیے

تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران میں مقامی ذرائع نے بی بی سی فارسی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ سیستان اور بلوچستان کے سرحدی علاقے کلیگان میں ایرانی سکیورٹی دستوں نے سینکڑوں گدھے ہلاک کر دیے ہیں۔

سنیچر کو ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک کچی سڑک اور اس کے ارد گرد سینکڑوں گدھوں کی لاشیں دکھائی دے رہی پیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز کے حکام نے ان جانوروں کو کالیگان کے علاقے میں ’ایندھن کی سمگلنگ کی روک تھام ‘ کی غرض سے ہلاک کیا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ 14 فروری کا ہے جس کی ویڈیوز اب سامنے آئی ہیں۔

کالیگان کا سرحدی پہاڑی علاقہ صوبہ سیستان اور بلوچستان کے سراوان کے اضلاع میں سے ایک ہے۔

ماضی میں ایندھن کی سمگلنگ کو روکنے یا اسے کم کرنے کے لیے کچھ سرحدی محافظوں نے جنگی تیروں سے ان جانوروں کو ہلاک کیا ہے۔

سیستان اور بلوچستان کی دو ممالک پاکستان اور افغانستان کے ساتھ 1100 کلومیٹر زمینی سرحد ہے اور بے روزگاری کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ تیل کی مصنوعات، خاص طور پر ڈیزل کی سمگلنگ کا ایک مقام ہے۔

ذرائع نے بی بی سی فارسی کو بتایا ہے کہ سینکڑوں گدھوں اور خچروں کی لاشیں گلیکان کے علاقے میں پڑی ہیں جہاں یہ تصاویر ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ایندھن کو سرحد کے دوسری طرف منتقل کرنے کے بعد وہ اس علاقے میں گھومتے ہیں۔

بہت سے معاملات میں، سرحدی محافظ جانوروں کو اس وقت گولی مار دیتے ہیں جب ان کا ایندھن لی جانے والے قافلوں سے سامنا ہوتا ہے یا صرف گدھوں اور خچروں کے ریوڑ کو دیکھتے ہیں، جو اس علاقے میں صرف ایندھن کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

مرے ہوئے سینکڑوں گدھوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والوں میں ایران میں انسانی حقوق کی تنظیم بھی شامل ہے۔

یہ جانور عام طور پر ملک کے دوسرے حصوں سے اس مقام پر سمگل کیے جاتے ہیں۔ مقامی تاجروں کے پاس عموماً دس سے بیس گدھے یا خچر ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہی ان کا واحد سرمایہ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ زیادہ مالی صلاحیت کے حامل سرمایہ کاروں کے پاس ایندھن لے جانے کے لیے زیادہ جانور ہوتے ہیں، جو وہ مقامی کارکنوں کو کرائے پر فراہم کرتے ہیں۔

ایران میں ان جانوروں کو مارنے کی ایک تاریخ ہے۔ ایران کے فوجی دستوں نے سیستان و بلوچستان اور کردستان میں کئی بار جانوروں کو ہلاک کیا ہے۔ ابھی تک کسی ادارے نے ان جانوروں کو مارنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

لندن میں قائم عالمی ادارہ برائے تحفظِ حیوانات جو کہ جانوروں کی فلاح و بہبود اور ان کے خلاف مظالم کے خاتمے کے لیے کام کرتا ہے، اس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں جانوروں کے تحفظ کے لیے بنیادی قانونی ڈھانچہ اب بھی وجود نہیں رکھتا۔

سنہ 2015 میں اسلامی کونسل کے کچھ ارکان نے ایران اور عراق کے سرحدی علاقوں میں جانوروں کی ہلاکت کے واقعات کو روکنے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس وقت پارلیمنٹ کے سوشل کمیشن کے رکن شکور پورحسین شکلان نے پولیس فورس کے برتاؤ کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ افسران کو گھوڑوں کو ہلاک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے مالکان کو قانون کے مطابق گرفتار کیا جانا چاہیے۔

لیکن ایک معاملے میں صوبہ کردستان کے سرحدی محافظ کمانڈر نے ایسی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں