یورپی یونین میں پناہ کی درخواستیں، سات سال کی بلند ترین شرح

برسلز (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) کورونا کی عالمی وبا کے باعث عائد سفری پابندیوں کے خاتمے کے بعد یورپی یونین میں پناہ کی درخواستوں میں گزشتہ برس 2021 ء کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ 2016ء میں مہاجرین کی آمد کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

یورپی یونین کی پناہ سے متعلق ایجنسی (EUAA) کے گزشتہ برس کے بارے میں ابتدائی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2022ء میں اس 27 رکنی بلاک اور سوئٹزرلینڈ اور ناروے میں مجموعی طور پر پناہ کی تقریباً ایک ملین درخواستیں جمع کرائی گئیں۔

اپنے لیے تحفظ کے خواہاں ان تارکین وطن میں سے سب سے بڑی تعداد شام اور افغانستان کے باشندوں کی تھی، جو دنیا کے مختلف ممالک سےپناہ کی تلاش میں یورپ آنے والوں کی کل تعداد کا ایک چوتھائی بنتی ہے۔ اس دوران یورپ آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کا دوسرا سب سے بڑا گروپ ترک باشندوں کا تھا۔ اس کے بعد وینزویلا، کولمبیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور جارجیا سے آنے والے تارکین وطن آتے ہیں۔ ان تارکین وطن کی تعداد تاہم نسبتاً کم رہی۔

یوکرینی پناہ گزینوں کی مختلف حیثیت

یورپی یونین نے مارچ 2022 ء میں سیاسی پناہ کا ایک عارضی نظام مرتب کیا تھا، جس سے یوکرینی پناہ گزینوں نے فائدہ اٹھایا۔ روسی فوجی حملے کے نتیجے میں اپنے ملک سے فرار ہونے والے یوکرینی باشندوں کی یونین کے کسی بھی ملک میں آمد کے بعد رجسٹریشن کے ساتھ ہی انہیں ایک خودکار طریقے سے ایک ‘حفاظتی نظام‘ کا حصہ بنا لیا جاتا ہے اور وہ ایک طرح کے عارضی حفاظتی زون میں آ جاتے ہیں۔

یورپی یونین کے ادارہ برائے شماریات ‘یوروسٹیٹ‘ کے مطابق روسی یوکرینی جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک چار ملین یوکرینی باشندوں نے اپنے لیے اس ‘حفاظتی حیثیت‘ سے فائدہ اٹھایا تاہم ان میں سے صرف دو فیصد نے اپنے میزبان یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم گزشتہ برس یہ بھی ہوا کہ 28 ہزار یوکرینی باشندوں نے یورپی یونین میں پناہ کی باقاعدہ درخواستیں دے دیں اور یہ اب تک کی اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

یورپی یونین کی رکن ریاستوں اور بہت سے دیگر ممالک نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے ابتدائی مرحلے میں جو سفری پابندیاں عائد کی تھیں، ان کی وجہ سے پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں سمیت بہت سے تارکین وطن کی نقل و حرکت میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی تھیں۔

پھر بڑے پیمانے پر ویکسینیشن شروع ہو جانے کے ساتھ ہی ان سفری پابندیوں میں کافی حد تک نرمی آ گئی تھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں میں بہت بڑی تعداد میں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں نے اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔ یونین کے شماریاتی ادارے کے مطابق 2022 ء میں مجموعی طور پر اس بلاک میں پناہ کی نو لاکھ 66 ہ‍زار درخواستیں دی گئیں۔ اس سے پہلے کے سات برسوں میں یہ سالانہ تعداد اس سے تو کم ہی رہی تھی مگر 2016ء میں یہی تعداد 12 لاکھ 51 ہزار 815 رہی تھی۔

پناہ کے نابالغ متلاشی

یوروسٹیٹ کے اعداد و شمار سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ 2015ء سے اب تک پناہ کی تلاش میں یورپی یونین کے ممالک پہنچنے والے قریب ایک ملین افراد کا تعلق خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تھا۔ ان میں پناہ کے متلاشینابالغافراد کی تعداد 43 ہزار تھی۔ 2022ء میں شام کے کُل 131,697 شہریوں اور افغانستان کے 128,949 باشندوں نے یونین میں پناہ کی درخواستیں دیں۔

اسی طرح پچھلے سال 55,437 درخواستیں ترک شہریوں، 51 ہزار وینزویلا کے باشندوں اور 43 ہزار کولمبیا کے شہریوں نے دیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ وینزویلا اور کولمبیا کے باشندوں کی طرف سے پناہ کی درخواستوں کی تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہو گئی تھی۔

ان ممالک کے بعد نسبتاً کم تعداد میں پناہ کے متلاشی افراد کا تعلق بنگلہ دیش، جارجیا، بھارت، مراکش، تیونس، نائجیریا اور صومالیہ سے تھا۔

2022ء میں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کا 16 واں سب سے بڑا گروپ روسی باشندوں کا تھا۔ پچھلے سال 16,920 روسی شہریوں نے یورپی یونین میں پناہ کی درخواستیں دیں۔

اس فہرست میں روسی شہریوں کے بعد بالترتیب مصر، جمہوریہ کانگو، ایران، البانیہ، پیرو اور اریٹریا سے آنے والے تارکین وطن آتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں