افغان طالبان نے طورخم بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی

کابل + اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) اس اہم سرحدی گزر گاہ کے چار روز تک بند رہنے سے دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں مال بردار ٹرک اور شہری پھنس کر رہ گئے تھے۔ طورخم کراسنگ کی بندش پاکستانی حکومتی وفد کے دورہ کابل کے ایک روز بعد ختم کی گئی۔

افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ سرحد پر اہم ترین گزرگاہ طورخم بارڈر کراسنگ کو چار دنوں کی بندش کے بعد جمعرات تیئیس فروری کے روز دوبارہ کھول دیا۔ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب پھنسےہزاروں مال بردار ٹرکوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔

ان ٹرکوں پر پھلوں اور سبزیوں سمیت تازہ اشیائے خور و نوش اور دیگر تجارتی سامان لدا ہوا ہے۔ اتوار کے روز طالبان کی جانب سے سرحد کی بندش سمیت متعدد امور پر بات چیت کے لیے اسلام آباد کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی وفد کابل بھجوائے جانے کے بعد طورخم کراسنگ پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی۔

افغانستان کےشمالی صوبے ننگرہار میں طالبان کی جانب سے تعینات اہلکاروں نے طورخم بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دیے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ پاکستان میں افغان سفارت خانے نے بھی ٹوئٹر پر اس اہم سرحدی راستے کے دوبارہ کھلنے کی خبر کی تصدیق کر دی۔

پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں مال بردار گاڑیاں جمعرات کو شمال مغربی پاکستان میں خیبر پاس سے گزرنا شروع ہو گئیں۔ یہ تازہ پیش رفت پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے کابل کے غیر اعلانیہ دورے کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے، جہاں انہوں نے طالبان کے اقتصادی امور کے لیے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر سمیت اعلیٰ طالبان عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔

اطراف کے حکام کے مطابق اس ملاقات کے دوران طورخم بارڈر کراسنگ کی بندش پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ طالبان نے اتوار کے روز اس کراسنگ کو یک طرفہ طور پر بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد پیر کے روز دونوں طرف کی سکیورٹی فورسز کے مابین فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا، جس میں ایک پاکستانی فوجی زخمی ہو گیا تھا۔

طالبان کے مطابق انہوں نے پاکستانی حکام کی طرف سے افغان تارکین وطن اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو سفری دستاویزات کے بغیر علاج کے لیے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے مبینہ انکار کے بعد طورخم بارڈر کراسنگ بند کی تھی۔

پاکستان کے لیے طورخم بارڈر کراسنگ ایک اہم تجارتی راہداری اور وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچنے کا اہم زمینی راستہ ہے۔ لیکن پاکستان نے افغان طالبان پر پاکستانی عسکریت پسندوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے، جن کے سرحد پار سے کیے جانے والے حملوں سے پاکستان کے اندر پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔

ملا برادر کے دفتر سے بدھ بائیس فروری کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان نے پاکستانی وفد پر زور دیا کہ طورخم اور اسپن بولدک پر ‘تمام مسافروں کے لیے ضروری سہولیات‘ فراہم کی جائیں۔ اسپین بولدک پاکستانی صوبے بلوچستان کے ضلع چمن میں افغان سرحد پر واقع ایک گزرگاہ ہے۔

بیان کے مطابق ملا برادر نے کہا کہ ہنگامی طبی نگہداشت کی ضرورت والے مریضوں کی نقل و حمل کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کی جائیں۔ بیان کے مطابق پاکستانی وفد نے ان معاملات کو جلد حل کرنے کا وعدہ کیا۔

طورخم بارڈر کا دوبارہ کھولا جانا اطراف کے ان تاجروں اور دیگر افراد کے لیے بڑی راحت کا باعث ہے، جو چار دنوں سے سرحد پر پھنسے ہوئے تھے۔ یہ دونوں پڑوسی ملکوں کے مابین کشیدگی میں کمی کا ایک اشارہ بھی ہے۔ پاک افغان سرحد پر بندشیں اور سرحد پار دوطرفہ فائرنگ کے واقعات عام ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بدھ کے دورے کے دوران پاکستانی وفد نے”خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے‘‘پر بھی بات چیت کی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں سے متعلق بھی خاص طور پر بات چیت کی گئی۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک الگ لیکن افغان طالبان کا اتحادی گروہ ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے نے ٹی ٹی پی کا حوصلہ بھی بڑھایا ہے، جس کے سرکردہ رہنما اور جنگجو افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی حالیہ مہینوں میں پاکستان میں اپنے خونریز حملوں میں تیزی لا چکی ہے، جہاں سکیورٹی فورسز اکثر ان کے ٹھکانوں پر چھاپے مارتی رہتی ہیں۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی پولیس کے مطابق جمعرات کے روز شمال مغربی ضلع لکی مروت میں ملکی سکیورٹی فورسز نے ایک تازہ کارروائی کے دوران چھ پاکستانی طالبان کو ہلاک کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں