امریکا: پناہ کے متلاشی افراد پر زیادہ سخت پابندیوں کا منصوبہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی) امریکہ اپنے ہاں پناہ کے خواہش مند مہاجرین پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تجویز کردہ ضابطے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مہاجرین کے لیے تجویز کردہ پابندیوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ایسے مہاجرین پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو امریکہ میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کے تجویز کردہ ضابطے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مہاجرین سے متعلق تجویز کردہ پابندی سے مماثلت رکھتے ہیں۔ چناچہ اگر یہ ضابطے نافذ ہوتے ہیں، تو امریکہ میں مہاجرین کے لیے پناہ کا حصول انتہائی دشوار ہو جائے گا۔

بائیڈن انتظامیہ کے تجویز کردہ ضابطوں کے تحت ان مہاجرین کو پناہ نہیں دی جائے گی جو بغیر کسی کارروائی کہ صرف امریکہ کی جنوبی سرحد پار کر کہ وہاں پہنچیں گے۔ اس کے بجائے مہاجرین کو کسٹمز اینڈ بارڈر پیٹرول ایپ کے ذریعے پناہ کی آن لائن درخواست دینی ہوگی یا وہ جس ملک کے ذریعے سفر کر کے امریکہ پہنچے ہوں پہلے وہاں اسائلم کی درخواست جمع کرنی ہوگی۔

نئے ضابطے نافذ ہونے کے بعد، میکسیکو کو چھوڑ کر، تمام ممالک کے شہریوں پر لاگو ہوں گے، کیونکہ میکسیکو کی سرحد امریکہ سے لگتی ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ ان ضابطوں کا نفاذ مئی میں کووڈ انیس سے متعلق ضوابط کے خاتمے کے بعد ہوگا۔

کیا ان قواعد کے نفاذ میں رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے؟

اس سے قبل 2019ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی مہاجرین پر اسی قسم کی پابندی عائد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے ان کو اس پابندی کے نفاذ سے روک دیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے تجویز کردہ ضابطوں کو بھی اس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔

لیکن امریکہ کے ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ اور محکمہ برائے انصاف نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ان ضا بطوں کا نفاذ نہیں ہونے کی صورت میں ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ کر 11,000 سے 13,000 تک پہنچ سکتی ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے مطابق ان ضابطوں کا مقصد تارکین وطن کو خطرناک سفر سے بچانا اور ان کی بڑی تعداد میں آمد کو ”محفوظ اور موثر طریقے” سے منظم کرنا ہے۔

تاہم ناقدین نے پناہ کی درخواست دینے کے لیے استعمال کی جانے والی ایپ میں نقص اورحکام سے ملاقات کے لیے وقت کی دستیابی سے متعلق ابہام کی نشاندہی بھی کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں