سرینگر: بھارتی کشمیر میں تین نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے والے فوجی افسر کو عمر قید کی سزا

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی ایک فوجی عدالت نے تین کشمیری نوجوانوں کوایک جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کا مجرم قرار دے کر ایک فوجی افسر کو عمر قید کی سزا سنادی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ فوجی افسر کیپٹن بھوپیندر سنگھ پر کورٹ مارشل کے دوران یہ الزام درست ثابت ہوا ہے کہ انہوں نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (افسپا) کے تحت حاصل اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے تین نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا تھا۔ 1990 سے نافذ اس ایکٹ کے تحت مسلح افواج کو علاقے میں جاری شورش سے نمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔

جعلی مقابلے میں تین نوجوانوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ 18 جولائی 2020 کو بھارت کےزیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان کے گاؤں امشی پورہ میں پیش آیا تھا۔

حکام نے بتایا کہ کپتان بھوپیندر سنگھ کے خلاف کورٹ مارشل کا آغاز اپریل 2021 میں ہوا تھا۔اس کیس میں ایک سال سے بھی کم عرصے میں کارروائی مکمل کی گئی ہے۔

بھارتی فوجی حکام کے بقول اس مقدمے میں کارورائی سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی فوج انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہے اور کسی بدنظمی کو برداشت نہیں کرتی ہے۔ تاہم فوجی ذرائع کا کہنا ہے اعلیٰ فوجی حکام کی توثیق کے بعد کپتان بھوپیندر سنگھ کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد ہوگا۔

جعلی مقابلے میں ہلاک ہونے والے کون تھے؟

بھارت کےزیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے تین نوجوان 20 سالہ محمد امتیاز، 25 سالہ محمد ابرار اور16 سالہ ابرار احمد خان مزدوری کے لیے 17 جولائی2020 کو شوپیان پہنچےتھےجہاں انہوں نے ایک کمرہ کرایہ پرلیا تھا۔

اپنی قیام گاہ پہننچے کی شام ان نوجوانوں نے اپنے اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ایک مقامی میوہ باغ میں کام مل گیا ہے جہاں وہ اگلے دن سے جانا شروع ہوجائیں گے۔ان نوجوانوں کا اپنے گھرو الوں کےساتھ آخری رابطہ تھا۔

ان نوجوانوں کے اہلِ خانہ نے پولیس اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ پہلے وہ سمجھے کہ وادیٔ کشمیر میں فون اور دوسری مواصلاتی سروسز کی بندش کی وجہ سے ان کا نوجوانوں سے رابطہ نہیں ہوپارہا۔ لیکن جب ان کا انتظار تشویش میں بدل گیا تو انہوں نے مقامی پولیس تھانے میں ان نوجوانوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔

فوج کا دعویٰ اور پولیس کی تصدیق

بھارت کی فوج نے18 جولائی 2020 کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں شوپیان کے امشی پورہ میں ایک آپریشن کے دوران تین دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیرکی پولیس نے فوج کے اس بیان کی نہ صرف تصدیق کی تھی بلکہ ہلاک کیے گئے مبینہ دہشت گردوں سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا ۔

پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہلاک شدگان کی شناخت نہیں ہوسکی ہے اوران کی لاشیں وصول کرنے کے لیے بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ اس کے بعد انہیں شوپیان سے250 کلومیٹر دور سرحدی ضلع بارہ مولہ کے اُس قبرستان میں دفن کردیا گیا جہاں عام طور پر کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے غیر ملکی عسکریت پسندوں کی تدفین کی جاتی ہے۔

پولیس نے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان مبینہ دہشت گردوں کی ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں تدفین سے پہلے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا اور ان کے ڈی این اے نمونے بھی حاصل کیے گئے ہیں۔

جب راجوری کے لاپتا نوجوانوں محمد امتیاز، محمد ابرار اور ابرار احمد خان کے والدین اور دوسرے رشتے داروں کو امشی پورہ میں کیے گئے فوجی آپریشن کے بارے میں معلوم ہوا تو ان کی بے چینی بڑھ گئی۔ ان نوجوانوں کے اہل خانہ نے قبر کشائی کرکے اس مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

پولیس نے ابتدا میں اس مطالبے کو رد کیا تھا تاہم پولیس اور فوج دونوں نے معاملے کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کیا۔ پولیس نے تحقیقات تیزی سے مکمل کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی۔

پولیس نے اگست 2020کے وسط میں لاپتا نوجوانوں کے قریبی رشتے داروں کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے تھے۔ تاہم اس کے بعد مزید کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔بعد ازں لاپتا نوجوانوں کے والدین نے جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کو خط لکھا جس میں یہ شکایت کی گئی تھی کہ فوج اور پولیس تحقیقات کو بلاوجہ طول دے رہے ہیں۔ لواحقین نے اپنے خط میں فوج اور پولیس کے رویے کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا۔

لاپتا نوجوانوں کے والدین نے لیفٹننٹ گورنر سے معاملے میں ذاتی مداخلت کی اپیل کی تھی۔ منوج سنہا نے راجوری جاکر لاپتا نوجوانوں کے والدین کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اس کے چند دن بعد پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نےاعلیٰ حکام کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کردی کہ شوپیان میں جن مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنےکا دعویٰ گیا تھا وہ ممکنہ طور پر راجوری کے لاپتا نوجوان ہیں۔

اس کے ساتھ ہی بھارت کی فوج نے جھڑپ سے متعلق شروع کی گئی تحقیقات کی تفصیلات جاری کردیں جن میں بتایا گیا تھا کہ آپریشن میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور آپریشن میں شامل افسران اور سپاہیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

بعدازاں لاپتا نوجوانوں کے والدین کے ڈی این اے نمونے بارہمولہ کے قبرستان میں دفن کیے گئے تین افراد کے نمونوں سے مل گئےاوراس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ہلاک کیے گئے مبینہ دہشت گرد دراصل یہی نوجوان ہیں۔

پولیس نے 30 ستمبر 2020 کو قبر کشائی کرکے ان کی باقیات کو لواحقین کے سپرد کردیا تھا جس کے بعد میں امتیاز، ابرار اور ابرار احمد نامی نوجونواں کو راجوری میں ان کے آبائی قبرستانوں میں دوبارہ دفن کیا گیا۔

’نوجوانوں کو انعام کے لالچ میں قتل کیا گیا‘

پولیس نے امشی پورہ میں فرضی جھڑپ کے بارے میں جاری کئے گئےاپنے ابتدائی بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نےیہ بیان مقامی پولیس تھانے میں فوج کی طرف سے واقعے سے متعلق درج کرائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر دیا تھا۔ پولیس نے بھوپیندر سنگھ اور ان کے ساتھیوں پر غلط بیانی کا مرتکب بھی قرار دیا۔

پولیس نے اس سلسلے میں ایک مقامی عدالت میں دائر کی گئی فردِ جرم میں فوج کے لیے مبینہ طور پر کام کرنے والے دو شہریوں تابش نذیر اور بلال احمد لون پر بھی اس واقعے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

فردِ جرم کے مطابق نوجوانوں کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کرنے کے بعد کپتان بھوپیندر سنگھ نے تمام ثبوت مٹادیے تھےاور پھر فوج سے نقد انعام حاصل کرنے کے لیے ایک مجرمانہ سازش کے تحت پولیس کے سامنے جھوٹا بیان دے کر اسے گمراہ کیا تھا۔ شہری عدالت میں یہ مقدمہ تاحال زیرِ سماعت ہے۔

جعلی مقابلے میں ہلاک کیے گئے نوجوانوں کے والدین اور دوسرے رشتے داروں نےاس واقعے میں ملوث فوجیوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ہلاک کئےگئے ایک نوجوان ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے بتایا کہ حکومت نے متاثرہ خاندانوں کو فی کس پانچ لاکھ روپے کی عبوری امداد دی تھی ۔یہ رقم اس سلسلے میں عدالت میں زیرِ سماعت مقدمے کے پیروی کے دوراں وکلا کی فیس ادا کرنے اور دوسرے اخراجات پورا کرنے پر صرف ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے اُن کے ساتھ ملاقات کے دوراں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہ پیغام بھی پہنچایا تھا کہ حکومت متاثرہ خاندانوں کی بھرپور مدد کرے گی جس میں ہر کنبے کے ایک فرد کو سرکاری نوکری فراہم کرنا بھی شامل ہوسکتاہے۔ لیکن ان کے مطابق اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے فوجی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اس طرح کے معاملات میں جواب دہی پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں