لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں ’ہولی‘ منانے والے طلبہ پر جمعیت کا حملہ، 15 ہندو زخمی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب یونیورسٹی کے احاطے میں انتظامیہ کی اجازت سے ہولی کھیلنے والے طلبہ پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ہندو برادری کے 15 طالبعلم زخمی ہوگئے۔

یہ واقعہ پیر کے روز پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سامنے پیش آیا، جہاں 30 کے قریب ہندو طلبہ ہولی منانے کیلئے جمع تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے ان طلبہ کو زبردستی ہولی منانے سے روک دیا اور انہیں لاٹھیوں، ڈنڈوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

طلبہ کی جانب سے وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا گیا اور موقف اپنایا گیا کہ سکیورٹی گارڈز کی موجودگی میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مبینہ طور پر گارڈز ان غنڈوں کی تائید کر رہے تھے۔ تاہم احتجاج کرنے والے طلبہ پر بھی یونیورسٹی کے سکیورٹی عملہ کی جانب سے تشدد کیا گیا اور احتجاج کو منتشر کر دیا گیا۔

طلبہ کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ سکیورٹی عملہ نے ان کے 4 ساتھیوں کو اغوا کر دیا ہے، جبکہ تشددکے نتیجے میں ڈیڑھ درجن کے قریب متعدد طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔

طلبہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے پیشگی اجازت لے رکھی تھی۔

حملے کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے پولیس کو درخواست دے دی گئی ہے۔ طلبہ کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ان پر ہونے والے تشدد کے واقعے کا مقدمہ بھی درج نہیں کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ کیمپس میں ہولی منانے پر ہندو برادری کے طلبہ کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔

کچھ دیگر ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ سیکیورٹی گارڈز لاٹھیاں لے کر طلبہ کو مار رہے ہیں اور وہ جائے وقوع سے بھاگ رہے ہیں۔

سندھ کونسل کے جنرل سیکریٹری کاشف بروہی نے ڈان کو بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت ملنے کے بعد ہندو برادری اور کونسل نے ہولی منانے کا اہتمام کیا۔

انہوں نے دعویٰ کہا کہ جب طلبہ نے اپنے فیس بک پیج پر ہولی منانے کے لیے دعوت دینے پوسٹ کی تھی تو اسلامی جمعیت طلبہ (آئی جے ٹی) کے کارکنوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیر کی صبح سندھ کونسل اور ہندو برادری کے ارکان پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے باہر ہولی منانے کے لیے جمع ہوئے تو آئی جے ٹی کے کارکنوں نے بندوقیں اور لاٹھیاں لے کر ان پر حملہ کیا۔

کاشف بروہی نے کہا کہ جھڑپ کے دوران ہندو برادری اور سندھ کونسل کے 15 طلبہ زخمی ہوئے اور تقریب منائے بغیر وہاں سے چلے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ طلبہ بعد میں وائس چانسلر کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے تو سیکیورٹی گارڈز لاٹھیاں پکڑے وہاں پہنچے اور انہیں مارنا شروع کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی گارڈز نے چار سے پانچ طلبہ کو اپنی وین میں بھی بٹھا لیا اور انہیں اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔

کاشف بروہی کے مطابق تشدد کرنے پر سیکیورٹی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ اور مقدمے کے اندراج کے لیے پولیس کے پاس درخواست جمع کرائی گئی ہے۔

دوسری جانب، اسلامی جمعیت طلبہ کے ترجمان ابراہیم شاہد نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے ہندو برادری کے افراد کو ہولی منانے سے نہیں روکا۔

انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں نے ان کا نام استعمال کیا ہو گا لیکن آئی جے ٹی اقلیتی طلبہ کے ان کی مذہبی تقریبات منعقد کرنے کے لیے برابری کو یقینی بناتی ہے۔

ترجمان آئی جے ٹی نے مزید کہا کہ سیکیورٹی گارڈز نے طلبہ پر حملہ کیا ہو گا اور اسلامی جمعیت طلبہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ کیمپس میں درس قرآن منعقد کر رہے تھے اور وہاں موجود نہیں تھے۔

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا کہ اقلیتی برادری کے افراد پر حملے میں ملوث طلبہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے ہندو برادری کے افراد کو ایک ہال میں ہولی منانے کی اجازت دی تھی لیکن وہ کھلے مقام پر تقریب منعقد کررہے تھے جسے روکنے کے لیے سیکیورٹی گارڈز وہاں آئے تھے۔

یونیورسٹی ترجمان کے مطابق طلبہ کو میدان میں ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ طلبہ کو معمولی چوٹیں آئیں اور تصادم میں ملوث افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی عملے نے طلبہ پر حملہ نہیں کیا لیکن وہ نوجوانوں کو وائس چانسلر کے دفتر کے قریب جانے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں