عراق جنگ کے 20 سال: ایرانی مفادات کو سب سے زیادہ تحفظ ملا

بغداد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) دو دہائیوں کے اقتدار کا مطلب ہےکہ اب ملکی شیعہ رہنما بہت سے ملکی مسائل کے لیے جوابدہ بھی ہیں۔ نوجوان عراقی پرانے وقتوں کی شناخت پر مبنی سیاست کے بجائے معاشی عدم مساوات اور بدعنوانی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

عراقی آمر صدام حسین کے برسر اقتدار ہوتے ہوئے ملکی شیعہ اکثریت ایک طویل عرصے تک محکوم رہی۔ لیکن بیس سال قبل امریکی قیادت میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد شیعہ اکثریت ہر حکومت میں تمام اختیارات اور نقصانات کے ساتھ ملکی سیاست پر حاوی ہے۔

عراق پر حملے کے ‘اصل فاتح‘

سن دوہزار تین میں امریکی حملے کے بعد عراق کی جنگ کے سب سے بڑی فاتح شیعہ تنظیمیں رہیں۔ ملکی فرقہ وارانہ طاقت کی تقسیم کے نظام میں وہ سنیوں اور نسلی کرد اقلیت پر برتری رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے بڑے پڑوسیایران کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ ایک طرح سے عراق کی شیعہ برادری کی نگرانی کرتے ہیں۔

یہ تعلق بعض مرتبہ تھوڑا پیچیدہ بھی ہو جاتا ہے کیونکہ امریکہ 1979ءکے اسلامی انقلاب کے بعد سے تہران کے حکمران شیعہ علماء کو دشمن قرار دے چکا ہے۔ بیالیس ملین آبادی والے شیعہ اکثریتی ملک عراق میں دو دہائیوں کے اقتدار کا مطلب یہ بھی ہے کہ بنیادی طور پر اب ملکی شیعہ رہنما ملک کے بہت سے مسائل کے لیے جوابدہ ہیں۔

صدام کے اقتدار کے خاتمے کے بعد شیعہ برادری کے لیے سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ وہ ایک بار پھر کھلے عام اپنے عقیدے کا پرچار کرنے کے لیے آزاد ہو گئے۔ لاکھوں زائرین ایک بار پھر ہر سال مقدس شہروں نجف اور کربلا میں عاشورہ اور دیگر مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں قائم مشرق وسطیٰ انیشیٹوو کے ایک محقق مارسین الشامری کہتے ہیں، ”کیا شیعہ 2003ء کے بعد کے آرڈر کے فاتح تھے؟ وہ اس لحاظ سے فاتح ہیں کہ وہ اکثریت میں ہیں اور اس وجہ سے حکومت میں ان کا سب سے بڑا حصہ ہے۔‘‘

جنگ کے بعد عراق میں اب شیعہ وزیر اعظم اور ایک سنی پارلیمنٹ کے اسپیکر کا طاقتور عہدہ رکھتا ہے جبکہ صدر کا رسمی عہدہ ایک کرد کے پاس رہتا ہے۔

‘شیعہ ہاؤس کا غلبہ‘

دو دہائیوں کے بعد عراق ”شیعہ ہاؤس‘‘ کہلانے والے طاقتور سیاسی کھلاڑیوں کا غلبہ جاری ہے۔ ان میں سابق وزیر اعظم نوری المالکی اور سابق اعلیٰ سرکاری حکام عمار الحکیم اور ہادی العامری بھی شامل ہیں۔ان میں بہت سے لوگ قدامت پسند اور اسلام پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کے تجربہ کار سیاستدان ہیں، جنہوں نے صدام کی حکمرانی کے خونی جبر سے بچنے کے لیے کبھی ایران یا یورپ میں پناہ لی تھی۔

الشامری کے مطابق ”پچھلے 20 سالوں میں ہم نے سیاسی اشرافیہ کا استحکام دیکھا ہے۔ اس دوران اشرافیہ کے یہ نمائندے سرکاری عہدیدار بننے سے سیاسی جماعتوں کے سربراہ بن گئے، جن کے پاس تکنیکی طور پر کوئی ریاستی عہدہ نہ ہونے کے باوجود اب بھی طاقت ہے۔‘‘

نئے سیاسی کھلاڑی

اس دوران نئے کھلاڑی بھی سیاسی منظر نامے میں داخل ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ تہران کے حمایت یافتہ ہیں، جیسے کہ حشد الشعبی فورسز، جو برسوں پہلے داعش کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کے لیے تشکیل دی گئی تھیں۔ حشد کے سابقہ ​​نیم فوجی دستے اب عراق کی باقاعدہ مسلح افواج میں ضم ہو چکے ہیں اور پارلیمنٹ اور حکومت میں بھی ان کی نمائندگی ہے۔

یونیورسٹی آف کوپن ہیگن میں اسسٹنٹ پروفیسر فانر حداد کے مطابق، “پچھلے بیس سالوں میں اشرافیہ کی سیاست میں تبدیلیاں آئی ہیں: نئے چہرے، جلاوطن سیاست دانوں کا کم ہوتا ہوا اثر و رسوخ تاہم نظام کی بنیادی باتیں بڑی حد تک غیر تبدیل شدہ ہیں۔‘‘

پچھلی دو دہائیوں پر نظر ڈالتے ہوئے حداد نے یہ نتیجہ اخذ کیا، “2003 میں عراق پر (امریکی) حملے سے زیادہ کسی ایک واقعہ نے ایرانی مفادات کو پورا نہیں کیا۔‘‘

منقسم بلاک

شیعہ بلاک متحد کے سوا کچھ بھی رہا ہے اور بعض اوقات اس تقسیم نے خونی تشدد کو جنم دیا ہے۔ سن دو ہزار اکیس کے انتخابات کے بعد ایران نواز کیمپ اور طاقتور عراقی شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے پیروکاروں کے درمیان ایک گہری دراڑ پڑ گئی، جس کا اختتام گزشتہ سال اگست میں وسطی بغداد میں خونریز لڑائی پر ہوا۔

حکمران اشرافیہ بھی عوامی غصے کا نشانہ بنی۔ اس کی ایک مثال اکتوبر 2019ء میں بڑے پیمانے پر سڑکوں پر شروع ہونے والا پر تشدد احتجاج تھا۔ نوجوانوں کی زیرقیادت اپوزیشن کی فرقہ وارانہ تحریک نے اپنا غصہ نااہل حکمرانی اور بدعنوانی سے لے کر ملک کے تباہ ہوتے انفراسٹرکچر اور ملازمت کے اپنے محدود امکانات تک ہر چیز پر نکالا۔

”نسل کی تبدیلی‘‘

بغداد اور شیعہ اکثریتی جنوبی عراق میں حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک اور پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے۔

الشامری نے کہا کہ ”نسل کی تبدیلی‘‘کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے نوجوان عراقیوں کے لیے ”پرانے وقت کی شناخت پر مبنی سیاست شاید ان کی پریشانیوں کی فہرست میں آخری چیز ہے۔‘‘

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ” 2003 ءکے بعد پیدا ہونے والے زیادہ تر عراقی ایک ایسی ریاست میں پلے بڑھے ہیں، جہاں انہیں سب سے بڑھ کر آمدنی میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اورانتہائی بدعنوانی کا سامنا ہے۔ ان کے لیے یہی وہ چیز ہے، جس کے خلاف وہ لڑ رہے ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں