کراچی: دو روز میں دو علما کا قتل، شہر میں فرقہ واریت کی نئی لہر کے خدشات

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دو روز میں مختلف واقعات میں دو فرقوں سے منسلک مذہبی رہنماؤں کے قتل نے فرقہ وارانہ تشدد دوبارہ شروع ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ماضی میں بھی شہر میں لسانی اور مذہبی فسادات کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد ہوتا رہا ہے جس میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ بیشتر واقعات میں قاتلوں کا سراغ نہ لگایا جاسکا اور انہیں اندھے مقدمات قرار دے کر بند کر دیا گیا۔

بدھ کو نیو کراچی میں اہل سنت والجماعت کے ایک مقامی رہنما 58 سالہ مولانا سلیم کھتری پر حملہ کیا گیا جس میں وہ مارے گئے۔

مولانا سلیم کھتری کے قتل پر اہل سنت والجماعت کے کارکنوں نے راشد منہاس روڈپر دھرنا دیا ۔ احتجاج کے بعد ان کی نمازِ جنازہ اسی شب ناگن چورنگی کے قریب تنظیم کے مرکز مسجدِ صدیق اکبر میں ادا کی گئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوع کے قریب نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سے واضح ہوتا ہے کہ چار نامعلوم افراد کی جانب سے ان پر ٹارگٹڈ حملہ کیا گیا۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس جاوید عالم اوڈھو کا کہنا ہے کہ پولیس نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور ملزمان کی شناخت اور گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے ڈی آئی جی کی سربراہی میں چار رکنی تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی ہے۔

کمیٹی میں سندھ پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ، علاقے کے ایس ایس پی اور ایس پی انویسٹی گیشن کو شامل کیا گیا ہے۔

سلیم کھتری کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ تنظیم اہلسنت والجماعت کے صوبائی قانونی مشیر بھی تھے۔

قبل ازیں منگل کو پیش آنے والے واقعے میں گلستان جوہر میں دو نامعلوم حملہ آوروں نے بریلوی عالم مفتی عبدالقیوم کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ فجر کی نماز پڑھ کر واپس گھر جا رہے تھے۔ مفتی عبدالقیوم سنی علماء کونسل کے سربراہ بھی تھے۔

معروف عالم دین مفتی منیب الرحمٰن نے الزام عائد کیا ہے کہ مفتی عبدالقیوم کے قتل کے پیچھے قبضہ مافیا کا ہاتھ ہے جو گلستان جوہر میں واقع اے پی پی سوسائٹی میں مسجد عائشہ کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سوسائٹی نے مسجد کی زمین تحریری طور پر سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کو دی تھی۔ ٹرسٹ نے مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہاں امام و خطیب مقرر کیا تو کچھ عناصر نے مسجد پر قبضے کی مہم شروع کر دی تھی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مفتی عبدالقیوم کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کرکے سزا دی جائے۔ مفتی عبدالقیوم عالم دین اور خواتین اسلامک مشن یونیورسٹی گلشن اقبال کے پرنسپل بھی تھے۔

کراچی میں مذہبی پس منظر کے لوگوں کا ایک ماہ میں یہ تیسرا ہائی پروفائل قتل ہے جن میں سے ابھی تک کوئی بھی کیس حل نہیں ہوا ہے۔

اس سے قبل فروری کے آخر میں دارِ ارقم اسکول کے ڈائریکٹر 55 سالہ سید خالد رضا کو ان کی رہائش گاہ کے باہر نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا۔

خالد رضا ماضی میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی مسلح تنظیم البدر سے منسلک رہ چکے ہیں جب کہ ان کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم سندھو دیش ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی۔

تفتیشی حکام نے خالد رضا کے قتل کو ملک کے مختلف علاقوں میں جہادی تنظیموں کا حصہ رہنے والوں کو نشانہ بنانے سے جوڑا تھا جس میں کراچی اور راولپنڈی میں ایسی ہی وارداتوں میں ماضی میں جہادی سرگرمیوں میں ملوث دیگر افراد کو نشانہ بنایا گیا۔

اردو اخبار ’جنگ‘ کے سینئر کرائم رپورٹر ثاقب صغیر کا کہنا ہے کہ پولیس نے ابھی تک خالد رضا کے قتل میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی ہے تاہم اس حوالے سے بعض افراد پولیس کی حراست میں بتائے جاتے ہیں جن سے تفتیش ہو رہی ہے۔

ثاقب صغیر نے نشاندہی کی کہ حال ہی میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے دو رہنماؤں کے قتل میں ابھی تک مماثلت کے کوئی واضح ثبوت تو پولیس حکام کو نہیں ملے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ عناصر دوبارہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرکے قتل و غارت چاہتے ہیں۔

ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس طرح کی مختلف کارروائیاں چھوٹی مگر کالعدم تنظیموں کی ہوسکتی ہیں جو اپنے مقاصد کے لیے شہر میں کشیدگی کو ہوا دینا چاہتی ہیں جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ہدف پولیس اور سیکیورٹی ادارے ہیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ٹی ٹی پی کو ایسے واقعات سوٹ نہیں کرتے، جس سے شہر کا امن خراب ہو کیوں کہ یہاں سے انہیں بہت بڑے پیمانے پر مالی امداد ملتی ہے جس کے بل بوتے پر ہی وہ اپنی کارروائیاں کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں