سندھ: ہندو دیوتا کی توہین کے الزام میں میرپور خاص سے صحافی گرفتار

میر پور خاص(ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ سندھ میں پولیس نے ہندو دیوتا شری ہنومان کی توہین کے الزام میں توہین مذہب کے قانون کے تحت ایک صحافی کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں میر پور خاص کے تھانہ سیٹلائیٹ میں مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

شکایت کنندہ رمیش کمار کا کہنا ہے کہ وہ لوہانہ پنچایت میر پور خاص کے نائب صدر ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 19 مارچ کو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تھے جب انھوں نے دیکھا کہ ایک مقامی صحافی جوابدار اسلم بلوچ کے اپنے فیس بک پیج اور واٹس ایپ گروپ پر بھگوان شری ہنومان کی تصویر شیئر کی۔

رمیش کمار نے اپنی شکایت میں کہا کہ بھگوان ہنومان کی یہ تصویر شیئر کرکے صحافی نے ان کے اور ان جیسے دیگر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس تصویر کو شیئر کر کے مذاہب کے درمیان تفرقہ پھیلانے اور امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔

سیٹلائیٹ پولیس سٹیشن نے رمیش کمار کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295A اور 153A کے تحت مقدمہ درج کیا۔

پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295A کے تحت ان لوگوں کو سزا دی جا سکتی ہے جو جان بوجھ کر دو مذاہب کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہبی جذبات مجروح کرنے پر اس دفعہ کے تحت دس سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے مقدمات عموماً اقلیتی مذاہب کے لوگوں کے خلاف درج کیے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب اکثریتی مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے خلاف بھی توہین مذہب کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی ہندو برادری کے لوگوں نے اس سوشل میڈیا پوسٹ کی مخالفت کی تھی جبکہ سندھ میں مسلمانوں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور گیان چند اسرانی نے اس واقعے کے بعد انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس سے رابطہ کیا اور ایس ایس پی میر پور خاص سے بھی بات کی۔ انھوں نے صحافی کو فوری گرفتار کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کسی کو کسی کے مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسی حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ ہندوؤں کے بھگوان کی توہین کی گئی، جس سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ کام ریاست میں امن کو خراب کرنے کے لیے کسی سازش کے تحت کیا گیا ہو گا۔

ادھر پولیس کی حراست میں جوابدار اسلم بلوچ کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا جس میں انھوں نے ہندو برادری سے معافی مانگتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ پوسٹ انھوں نے خود نہیں کی تھی بلکہ یہ ان کے ساتھ کسی نے شیئر کی تھی، جسے انھوں نے مزید شیئر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ ہندومت کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں لیکن دوسری جانب شکایت کنندہ کا کہنا ہے کہ یہ سازش ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کی سب سے زیادہ آبادی صوبہ سندھ میں رہتی ہے جبکہ سندھ کی 70 فیصد ہندو آبادی میرپورخاص میں رہتی ہے۔

تھرپارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ کے سرحدی اضلاع، میرپور خاص ڈویژن میں آتے ہیں اور ان اضلاع کی سرحدیں انڈیا سے ملتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں