شام میں متحارب غیرملکی حمایت یافتہ جنگجو کون ہیں؟

دمشق (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے ایران کے حمایت یافتہ نیم فوجی گروہوں نے بشار الاسد کی افواج کا ساتھ دیا ہے۔ امریکہ اس علاقے میں کرد جنگجوؤں کی حمایت کر رہا ہے۔

امریکی افواج نے مشرقی شام میں کیے گئے ایک حالیہ ڈرون حملے میں ایک امریکی فوجی ٹھیکیدار کی ہلاکت کے بعد جوابی کارروائی کے دوران گیارہ ایران نواز جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔ یہ غیر ملکی حمایت یافتہ عناصر کے زیر تسلط علاقے میں کشیدگی کا ایک تازہ ترین واقعہ ہے۔

امریکی فوجی آپریشن دریائے فرات پر دو حصوں میں بٹے ہوئے مشرقی صوبے دیر الزور میں کیا گیا۔ یہاں حریف افواج نے دریا کے مخالف کناروں پر پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراق کے ساتھ شام کی سرحد پر ایک غیر محفوظ علاقے میں امریکیوں اور ان کے مخالف ایرانی حمایت یافتہ جنگجوؤں کی تعیناتیوں کا جائزہ لیا ہے۔

سن دو ہزار گیارہ میں شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے ایران کے حمایت یافتہ نیم فوجی گروہوں نے شامی صدر بشار الاسد کی افواج کو تقویت دی۔ شام میں جنگ پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق عراق، افغانستان اور پاکستان سے تقریباً پندرہ ہزار ایران نواز پراکسی جنگجو دیر الزور میں تعینات ہیں۔

یہ سرحدی علاقہ اس راستے کا ایک اہم حصہ ہے، جسے ایران کے حامی مسلح گروپ عراق اور شام کے درمیان جنگجوؤں، ہتھیاروں اور یہاں تک کہ اشیائے خورونوش کی منتقلی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تہران شام میں اپنے باقاعدہ فوجیوں کی تعیناتی کی تردید کرتا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاسداران انقلاب کے اہلکار اسد حکومت کی حامی فورسز کے ساتھ”فوجی مشیر‘‘ ہیں۔

عراق میں ملیشیا کے حشد الشعبی نیٹ ورک کی چھتری تلے کام کرنے والے ایران نواز باغیوں میں سب سے مشہورکتائب حزب اللہ ہے۔ شام میں موجود عراقی یونٹوں میں امام علی بریگیڈ اور سید الشہداء بریگیڈ بھی شامل ہیں۔

کاتب حزب اللہ سمیت ان گروہوں کو ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ خاص طور پر قریبی تعلقات کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایران کے اتحادی لبنانی شیعہ تحریک حزب اللہ نے بھی سن دوہزار تیرہ میں بشارالاسد کی فوجی حمایت کا باضابطہ اعلان کرنے کے بعد سے خطے میں اپنے مشیروں اور کمانڈروں کو تعینات کیا ہے۔

آبزرویٹری کے مطابق شیعہ افغان ملیشیا پر مشتمل فاطمید بریگیڈ اور پاکستانی جنگجوؤں کا گروہ زینبیون بریگیڈ بھی دیر الزور میں تعینات ہیں۔

شامی آبزرویٹری کے مطابق فاطمید بریگیڈ کو شام میں سب سے بڑا ایران نواز گروپ سمجھا جاتا ہے اور وہ زینبیون بریگیڈ کے ساتھ ساتھ 2019 ء سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔ ہزاروں شامی بھی ایران کے تنخواہ دار اور دیر الزور کی مقامی ملیشیاؤں میں شامل ہیں۔

امریکہ کردوں کی زیرقیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کی حمایت کرتا ہے۔ ایس ڈی ایف یہاں نیم خودمختار کرد انتظامیہ کی غیر اعلانیہ فوج ہے اور فرات کے مشرق میں علاقوں کی نگرانی کرتی ہے۔

ایس ڈی ایف نے پے در پے امریکی حمایت یافتہ مہمات کے بعد 2019 ء میں داعش کو مشرقی شام کے علاقے باغوز میں شکست دینے کا اعلان کرتے ہوئے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج 2014 ء میں داعش سے لڑنے کے لیے شام میں داخل ہوئی تھیں اور انہوں نے ملک کی سب سے بڑی العمر آئل فیلڈ کے ساتھ ساتھ کونوکو گیس فیلڈ میں اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ یہ دونوں آئل فیلڈ بھی فرات کے مشرقی کنارے پر واقع ہیں۔ امریکی اہلکار شام کے شمال مشرق میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقے ہسکیہ اور شمالی صوبے رقہ میں بھی تعینات ہیں۔

امریکی فوجیوں نے سن دوہزار چودہ میں اردن اور عراق کی سرحدوں کے قریب جنوبی شام میں تزویراتی اہمیت کے حامل التنف کے دور دراز علاقے میں ایک اڈہ قائم کیا۔ اس غیر مستحکم خطے میں شام کے چند اہم ترین تیل کے ذخائر اور گیس پلانٹس واقع ہیں۔ یہ علاقہ ایران اور اس کے امریکی اور اسرائیلی حریفوں کے درمیان لڑائی بھڑک اٹھنے کا مرکز رہا ہے۔

اسرائیلی فضائی حملے باقاعدگی سے ہتھیاروں کی ترسیل، اسلحہ ڈپو اور ایران کے زیر انتظام فوجی چوکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق نومبر 2022ء میں ہتھیار اور ایندھن لے جانے والے ایران نواز ملیشیا کے ٹرک قافلے پر ایک اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کم از کم چودہ افراد مارے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں