اسرائیلی وزیرِ دفاع کی برطرفی کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے

تل ابیب (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے ‘متنازع’ عدالتی اصلاحات روکنے والے اسرائیلی وزیر دفاع یواف گیلانٹ کو عہدے سے فارغ کر دیا ہے جس کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق یواف گیلانٹ نے ایک بیان میں ملک میں عدالتی اصلاحات کو روکنے کا کہا تھا جس کے بعد وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے انہیں اتوار کو عہدے سے ہٹادیا۔

وزیرِ دفاع کی برطرفی کی خبر کے بعد اسرائیل بھر میں ہزاروں شہری ملک کا پرچم اٹھائے احتجاج کے لیے رات گئے سڑکوں پر نکل آئے۔

وزیراعظم نیتن یاہو کے گھر کے باہر بھی مظاہرین جمع ہوئے اور ایک موقع پر سیکیورٹی صورتِ حال بے قابو ہو گئی۔

یار رہے کہ حکومت سنبھالنے کے محض تین ماہ بعد نیتن یاہو کی قوم پرست مذہبی اتحادی حکومت کو ملک میں عدالتی اصلاحات کی وجہ سے بحران کا سامنا ہے۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں یائیر لاپیڈ اور بینی گینٹز نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ملک کی سلامتی سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے بقول نیتن یاہو نے آج ریڈ لائن کراس کی ہے۔

گیلنٹ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے نیتن یاہو کے آفس نے ان کی جگہ کسی اور کو نامزد نہیں کیا اور نہ ہی مزید تفصیلات فراہم کی ہیں۔

وزیرِ اعظم آفس جاری بیان میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے وزیر دفاع کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس فیصلے کے کچھ دیر بعد گیلنٹ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اسرائیل کی ریاست کی سلامتی ہمیشہ ان کی زندگی کا مشن رہی ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نے وزیرِ دفاع کو ہٹانے کا فیصلہ ہفتے کے روز گیلنٹ کے اس بیان کے بعد کیا تھا جس میں انہوں نے عدالتی اصلاحات روکنے کی درخواست یہ کہہ کر دی تھی کہ اس سے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔

انہوں نے ٹی وی پر اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اس وقت ملک کی خاطر وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔

حکومت کی جانب سے مجوزہ عدالتی اصلاحات کے تحت حکومت کو سپریم کورٹ کے ججوں کی نامزدگی کے اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔

رواں مہینے کے اوائل میں ملک کے صدر آئیزک ہرزوگ نے بھی خبردار کیا تھا کہ ملک میں عدالتی اصلاحات کے بارے میں اگر بڑے پیمانے پر اتفاق نہ پیدا کیا گیا تو صورتِ حال جلد تباہی کی جانب بڑھ سکتی ہے۔

لیکن اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ اس سے ایکٹوسٹ ججوں کو لگام ڈالی جا سکے گی اور ملک میں منتخب حکومت اور عدلیہ کے اختیارات میں توازن پیدا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں