افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم کیلئے سرگرم معروف کارکن مطیع اللہ ویسا گرفتار

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) مطیع اللہ ویسا افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے ایک پروجیکٹ کے بانی اور بند اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے سرگرم ہیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق طالبان حکام نے مطیع اللہ ویسا کو کابل میں گرفتار کرلیا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) نے منگل کے روز بتایا کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے ایک سرگرم کارکن مطیع اللہ ویسا کو طالبان حکام نے اس ہفتے کابل میں گرفتار کرلیا۔ ویسا کے بھائی کا کہنا ہے کہ مطیع اللہ کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

یو این اے ایم اے نے اپنے ایک بیان میں طالبان سے مطالبہ کیا کہ”وہ مطیع اللہ کے بارے میں بتائیں کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ انہیں کن اسباب کی بنا پر گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے قانونی نمائندوں کی ان تک رسائی نیز ان کے اہل خانہ کی ان سے ملاقات کو یقینی بنایا جائے۔”

طالبان کی وزارت اطلاعات اور انٹیلیجنس نے نہ تو ان سوالوں کے جواب دیے ہیں اور نہ ہی ان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔

مطیع اللہ ویسا کون ہیں؟

مطیع اللہ ویسا قلم لار(پین پاتھ) نامی ایک تنظیم کے بانی ہیں جولڑکیوں کی تعلیم، بالخصوص قدامت پسند دیہی علاقوں میں ان کی تعلیم کے فروغ کے لیے سرگرم ہے۔

قندھار سے تعلق رکھنے والے ویسا کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سے بچوں کی تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔ قلم لار نے قبائلی سرداروں کے ساتھ کئی میٹنگیں کیں اور اسکول کھولنے میں حکام کی مدد لی۔ اس نے بچوں میں کتابیں تقسیم کیں اور ملک بھر میں موبائل لائبریری کا نظم کیا۔

وہ تقریباً 30 سال قبل قندھار میں ایک استاد کے گھر پیدا ہوئے۔ جب وہ چھوٹے تھے تو خانہ جنگی میں اپنا اسکول جلائے جانے کے بعد سے وہ بچوں کی تعلیم کے حق کے لیے لڑتے رہے۔

انہوں نے اور ان کے دوستوں نے 52 بند اسکولوں کو دوبارہ کھولا ہے اور دور دراز علاقوں میں 18 لائبریریاں قائم کی ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے دور دراز دیہاتوں میں بالغوں کی خواندگی کے لیے ایک موٹر سائیکل لائبریری بھی بنائی۔

مغرب کی حمایت والی سابقہ حکومت کے دوران بھی وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم رہے اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا ہوا تھا۔

لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی

طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد لڑکیوں کو ہائی اسکول اور خواتین کو یونیورسٹی جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کو اسکول جانے کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ ان کے لباس کا ہے۔

حالانکہ طالبان حکام اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی بات کرتے رہے ہیں تاہم اپنے وعدے پر اب تک پورا عمل نہیں کیا ہے۔

طلبہ اور کارکنوں نے ان پابندیوں کے خلاف مظاہرے کیے ہیں لیکن اسکول جانے کی ان کی مہم اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے کے حوالے سے طالبان پر بین الاقوامی دباو بھی اب تک ناکام رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں