چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات محدود کرنے کا بل قومی اسمبلی سے منظور

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات محدود کیے جا رہے ہیں۔

وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جسے کچھ ترامیم کے بعد منظور کر لیا گیا۔

مذکورہ بل کی وفاقی کابینہ نے منگل کو منظوری دی تھی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا تھا۔

بدھ کو اجلاس کے دوران رُکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی مجوزہ ترمیم کو بھی بل میں شامل کر لیا گیا۔محسن داوڑ کی ترمیم تھی کہ پہلے جتنے بھی ازخود نوٹس ہوئے اس میں اپیل کا حق نہیں تھا، لہذٰا اس ترمیم کو بھی شامل کیا جائے۔

قانونی ماہرین کے مطابق اس ترمیم کا اطلاق ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹسز پر بھی ہو گا اور متاثرہ فریقوں کو رائٹ آف اپیل مل گیا ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ہے کیا؟

بل کے مسودے کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔ آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججز کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔

بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔

عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو بھی محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

‘مجوزہ ترامیم کے ذریعے سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے’

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے مجوزہ ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔

ایک ٹوئٹ میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مجوزہ ترامیم کو بھی مسترد کرتے ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ حق صرف منتخب پارلیمان کے پاس ہے کہ وہ ایک تفصیلی بحث کے بعد کوئی بھی ترمیم کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں