جنرل باجوہ پر تنقید: سابق جرنیل کے اہلخانہ نے سویلین بیٹے کے کورٹ مارشل پر خاموشی توڑ دی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر تنقیدی خط لکھنے اور اسے دیگر فوجی جرنیلوں کو بھی بھیجنے کے معاملے پر پانچ برس قید کی سزا پانے والے حسن عسکری کے والدین نے خاموشی توڑ دی ہے۔

حسن عسکری کے والد میجر جنرل (ر) ظفر مہدی اور اُن کی اہلیہ نے اپنے وکلا کے ہمراہ منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کی۔

کورٹ مارشل کے ذریعے سزا پانے والے حسن عسکری کے والدین کا کہنا ہے کہ “ہمارا دل ٹوٹ چکا ہے،ڈھائی سال سے خاموشی سے عدالتی جنگ لڑنے کے باوجود ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور ہمیں نہیں معلوم کے ہم انصاف اور مدد کے لیے کہاں جائیں۔”

میجر جنرل (ر) ظفر مہدی عسکری نے شکوہ کیا کہ اُن کے بیٹے کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔

پاکستانی فوج کی طرف سے اس معاملے پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم ماضی میں اس کیس کے حوالے سے پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کا کہنا تھا کہ عدالتیں ملکی قانون کے مطابق اس کیس کا فیصلہ کریں گی۔

افواجِ پاکستان کے ذرائع اس کیس میں آئین اور قانون کے تقاضے پورے کرنے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔

افواجِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ فوج کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی، لہذٰا قومی سلامتی کے معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

‘ںہ فیصلے کی کاپی ملی نہ الزامات کی چارج شیٹ’

میجر جنرل (ر) ظفرمہدی عسکری نے کہا کہ انہوں نے فوج کے آرٹلری اور ایوی ایشن ڈویژن میں 33 سال تک خدمات سرانجام دیں، 33 سال کی کٹھن اور سخت ملازمت کے بعد وہ اس اذیت کے لیے تیار نہیں تھے جو ان کے خاندان کے ساتھ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے سویلین بیٹے حسن عسکری کو دو اکتوبر 2020 میں ان کے گھر سے اٹھانے کے بعد فوجی حکام کے حوالے کیا گیا اور پھر کورٹ مارشل کے بعد پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

اُن کے بقول گرفتاری سے اب تک بار بار درخواستوں کے باوجود ان کے اہلِ خانہ کو نہ تو فیصلے کی کاپی دی گئی اور نہ ہی اس پر الزامات کی چارج شیٹ دی گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ حسن عسکری نے اپنے خط میں مدت ملازمت میں توسیع اور افواج پاکستان کے کچھ فیصلوں کے اثرات کی صورت میں پاکستان کے معاشی اور سیاسی طور پر متاثر ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔

ظفر مہدی کہتے ہیں کہ حسن عسکری کے خلاف مقدمہ تو اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں درج کیا گیا لیکن اس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات تو تھیں لیکن آرمی ایکٹ کا کہیں کوئی حوالہ نہیں تھا۔

اُن کے بقول حسن کو فوج کے حوالے کیا گیا اور کئی ماہ تک انہیں قید تنہائی میں رکھ کر ہمیں اس وقت کال کرنے کی اجازت ملی جب حسن کو باقاعدہ چارج کرلیا گیا تھا۔

ظفر مہدی نے کہا کہ اس میبنہ خط سے فوج میں کہاں بغاوت ہوئی یا سینئر نے ان کا حکم ماننے سے انکار کیا، ایسا کوئی ثبوت موجود ہے کیا؟ لیکن ہمیں تو کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ” جس وقت حسن کو گرفتار کیا گیا تو میں نے فوری طور پر فوجی حکام سے رابطہ کیا لیکن ایک عرصہ تک کوئی جواب نہ دیا گیا اور اب بھی اعلیٰ عسکری حکام نے میرے بار بار رابطوں پر کوئی جواب نہیں دیا۔”

‘سادے کاغذ پر بھائی کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی’

حسن عسکری کی بہن زہرا مہدی نے کہا کہ حسن کے خلاف سادہ کاغذ پر فیصلہ لکھ کر پانچ سال کی سزا دی گئی، اسے ساہیوال جیل میں خطرناک دہشت گردوں کے درمیان رکھا گیا ہے۔

زہرا مہدی نے کہا کہ حسن کا فوج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ صرف پاکستان سے محبت کرتا تھا، آج بھی وہ ملک سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا اور اس وقت اس نے کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حسن کو قتل وغارت اور دہشت گردی کے سزا یافتہ مجرموں کے ساتھ رکھا گیا ہے اور وہ 24 گھنٹے قید تنہائی میں ہے جہاں انہیں روشنی اور تازہ ہوا تک نصیب نہیں ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ حسن کے بوڑھے والدین کو ملاقات کے لیے ساہیوال کا سفر کرنا پڑتا ہے اور صرف آدھے گھنٹہ کی ملاقات کے لیے 14 سے 15 گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے، اس پر ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور اڈیالہ جیل راول پنڈی منتقلی کی درخواست کی۔

‘عدالت نے اڈیالہ منتقلی کا فیصلہ دیا ڈالے والے واپس ساہیوال لے گئے’

اُن کے بقول عدالت نے حسن کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا، لیکن منتقلی کے دوران چکری کے قریب نامعلوم کالے شیشے والے ڈالے میں سوار افراد نے گاڑیوں کو روکا اور حسن کو دوبارہ ساہیوال جیل بھجوا دیا جس کے بعد سے اب تک وہ وہیں ہے اور عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا جا رہا۔

حسن عسکری کی والدہ وسیمہ عسکری نے کہا ہم اب تھک چکے ہیں، ہردروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود ہمیں انصا ف نہیں مل سکا۔ ان کے بیٹے کے ساتھ جو ہوا وہ انصاف کا قتل ہے، ایک سویلین کو صرف خط لکھنے پر کورٹ مارشل کرکے پانچ سال کے لیے قید کردیا گیا۔ حسن کو سزا دینے کا مقصد صرف ایک پیغام دینا تھا کہ کوئی آئندہ اپنے ملک کے حق میں بات کرنے کی ہمت نہ کرے۔

حسن عسکری کی وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا کہ ہم نے اس معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں ان چیمبر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ ہے اور ہم اس کا انتظار کررہے ہیں۔

ایمان مزاری کا مزید کہنا تھا کہ جیل منتقلی کا کیس دوبارہ لاہور ہائی کورٹ میں فکس نہیں ہوسکا جب کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف اپیل کی شنوائی دوبارہ کب ہوگی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جارہا۔

ایمان زینب مزاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف بھی درخواستیں دائر کی گئیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا۔

حسن عسکری کی بہن زہرا عسکری نے کہا کہ آج ہونے والی پریس کانفرنس کے بعدہمیں حسن عسکری کی جان کو بھی خطرہ محسوس ہورہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں