بحرین میں اسلام پر متنازعہ آن لائن بحث: شیعہ برادری کے 3 افراد کو ایک سال قید کی سزا

بحرین (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی) بحرین میں مذہب اسلام پر متنازعہ بلاگ پوسٹس کی سیریز اور یوٹیوب ویڈیوز میں ہونے والے بحث و مباحثے کے لیے تین مردوں کو ایک ایک برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

بحرین میں 30 مارچ جمعرات کے روز سرکاری استغاثہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ملک میں ”اسلام کی بنیادی خلاف ورزیوں” کے جرم میں تین افراد کو ایک ایک برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان تینوں کی شناخت جلال القصاب، رضا رجب اور محمد رجب کے طور پر کی ہے۔ تینوں کا تعلق تجدید نامی ایک مقامی شیعہ ثقافتی سوسائٹی سے بتایا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے اس فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، جس نے سنیوں کی حکمرانی والی مملکت میں اکثریتی شیعہ برادری کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بھی اجاگر کیا ہے۔

سزا کیوں دی گئی؟

بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق سائبر کرائم کے پراسیکیوٹرز نے تینوں مدعا علیہان کو ”دانستہ طور پر مذہب اسلام کی ان بنیادی باتوں، جس پر تمام مسلمان اور فرقے متفق ہیں، کو مجروح کرنے کے الزام میں” فوجداری عدالت کے حوالے کیا تھا۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے ”اسلامی پیغمبروں اور انبیاء کی زندگیوں سے متعلق ایسی بلاگ پوسٹس کیں اور یوٹیوب ویڈیوز بنائے ہیں، جن سے ان کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر کی گئی چیزوں کی نہ صرف تردید ہوتی ہے بلکہ اس سے ان کی تضحیک بھی ہوتی ہے۔”

ثقافتی ادارہ تجدید مذہب اسلام پر کھلے مباحث کی وکالت کرتا ہے، تاہم اس کے ناقدین اس پر اسلام کی بنیادوں پر حملہ کرنے اور مبینہ طور پر پیغمبر اسلام سے متعلق معجزات کو مشہور افسانہ بتا کر انہیں مسترد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایسے افراد نے گروپ کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے کی مہم بھی چلا رکھی ہے۔

تاہم تجدید گروپ کا کہنا ہے کہ وہ قرآن یا پیغمبر محمد کی تعلیم پر سوال نہیں اٹھاتا بلکہ مذہبی اسکالرز اور جدید دور کے علماء کی رائے پر بحث کرتا ہے۔

انہیں ایک ایسے قانون کے تحت سزا سنائی گئی ہے، جس کے مطابق بحرین میں قرآن اور بائبل سمیت کسی بھی ایسی کتاب کا مذاق اڑانا جرم ہے، جنہیں ملک نے مقدس کتاب کا درجہ دے رکھا ہے۔

تجدید کے خلاف ‘نفرت انگیز بیانات’

بحرین کے ادارے تجدید نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ بعض مساجد اور سوشل میڈیا پر اس کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ”نفرت انگیز تقریریں اور اشتعال انگیز” بیانات دیے گئے۔

گروپ نے اس عدالتی کیس کو بھی ”بد نیتی پر مبنی” قرار دیا اور کہا ہے کہ وہ صرف ”تحقیق کرنے، تجزیہ کرنے، مطالعہ کرنے اور روشن خیالی کے لیے محض اپنے فطری اور قانونی حق کا استعمال کر رہا ہے۔”

گزشتہ ماہ حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بحرینی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ”فوری طور پر ان مردوں کے خلاف ایسے تمام الزامات واپس لے، جس کی وجہ سے انہیں مذہبی بنیادوں پر اشتعال انگیز عوامی تبصروں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔”

سن 2011 میں شیعہ برادری کی جانب سے ملک میں ہونے والے جمہوریت نواز مظاہروں نے بحرین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ حکام نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے سخت کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں