امریکی عدالتوں نے ایرانی اثاثے غیرقانونی طور پر منجمد کیے ہیں، عالمی عدالت انصاف

دی ہیگ (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) جمعرات کو عالمی عدالت انصاف کے ججوں نے یہ جزوی فیصلہ سناتے ہوئے کہ واشنگٹن نے عدالتوں کو غیر قانونی طور پر کچھ ایرانی کمپنیوں کے اثاثے منجمد کرنے کی اجازت دی تھی، امریکہ کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے، رقم کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔

تاہم، عالمی عدالت نے کہا کہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے کہ وہ 1.75 ارب ڈالر سے زیادہ کے ایران کے مرکزی بینک کےمنجمد اثاثوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے قائم مقام قانونی مشیررچ وایزیک نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ اس فیصلے نے ’’ایران کے کیس کی اکثریت کو مسترد کر دیا، خاص طور پر جہاں اس کا تعلق مرکزی بینک کےاثاثوں سے ہے‘‘۔

وایزیک نے مزید کہا، ’’یہ ایران کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے متاثرین اور امریکہ کے لیے ایک بڑی فتح ہے‘‘۔

دوسری طرف ایران کی وزارت خارجہ نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر شیئر کیے گئے ردعمل میں، اس فیصلے کو اپنے موقف کو جائز قرار دئیے جانے اور امریکہ کے غلط رویے کی نشان دہی سے تعبیر کیا۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ اس وقت آیاہے جب گزشتہ ہفتے شام میں ایران کی حمایت یافتہ افواج اور امریکی فوجی اہل کاروں کے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

ایران اور بڑی عالمی طاقتوں کے تعلقات، 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں میں تعطل اور روس کی جانب سے ایرانی ڈرون یوکرین کے خلاف استعمال کیے جانے کے بعد مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔

ایران نے عدالت میں واشنگٹن کے خلاف یہ مقدمہ 2016 میں دائر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مبینہ طور پر امریکی عدالتوں کو ایرانی کمپنیوں کے اثاثے منجمد کرنے کی اجازت دے کر 1955 کے دوستی کےمعاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ یہ رقم دہشت گرد حملوں کے متاثرین کو معاوضے کی مد میں دی جانی تھی۔

اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی دہشت گردی کی حمایت کرنے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔

1950 کی دہائی کے دوستی کے معاہدے پرایران کے 1979 کے اسلامی انقلاب سے بہت پہلے دستخط کیے گئے تھے اسلامی انقلاب کے بعد امریکی حمایت یافتہ شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، اوراس کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کے تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔

واشنگٹن بالآخر 2018 میں دوستی کے اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود، عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ معاہدہ ایرانی تجارتی کمپنیوں اور اداروں کے اثاثے منجمد کیے جانے کے وقت موجود تھا۔

عدالتی پینل کی سربراہ نے جج کیرل گیورجیئن نے کہا کہ ’’ عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکہ نے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران معاوضے کا حقدار ہے اور فریقین کے پاس اعداد و شمار پر متفق ہونے کے لیے 24 ماہ کا وقت ہے۔ اگر یہ کام نہیں کرتا، تو عدالت ادا کی جانے والی رقم کا تعین کرنے کے لیے نئی کارروائی شروع کرے گی۔

ججوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ عدالت کا ایران کے مرکزی بینک کے 1.75 بلین ڈالر کے اثاثوں پر کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے جو امریکہ کے پاس ہیں کیونکہ یہ بینک کوئی تجارتی ادارہ نہیں تھا، اوراس طرح اسے معاہدے سے تحفظ حاصل نہیں تھا۔

عدالت کے احکام کی پابندی لازم ہے لیکن ان کے نفاذ کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ امریکہ اور ایران ان معدودے چند ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں اس کے فیصلوں کو نظر انداز کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں