سویڈن: عدالت نے قرآنی نسخوں کو نذر آتش کرنے سے متعلق مظاہروں پر پابندی ختم کردی

سٹاک ہوم (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) سویڈن کی ایک عدالت نے منگل کے روز ایک اہم فیصلہ سنایا اور پولیس کے اس اقدام کو کالعدم قرار دے دیا جس میں وہ قرآنی نسخوں کو نذر آتش کیے جانے کے خلاف ہونے والے دو مظاہروں پر پابندی لگانا چاہتے تھے، جب کہ اسی طرح کے ایک مظاہرے میں دہشت گردی کی کارروائی کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں پانچ مشتبہ اسلام پسندوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

جنوری میں سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے نے مسلم دنیا کو مشتعل کر دیا تھا اور کئی ہفتوں تک اس کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ۔ سویڈن کے سامان کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا، اور سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست روک دی گئی۔

سویڈن کی سپریم ایڈمنسٹریٹو کورٹ نے قرآنی نسخے جلانے کے بعد فروری میں ہونے والے دو مظاہروں پر پابندی کے پولیس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کا یہ موقف کہ حفاظتی خطرات کے پیش نظر مظاہروں پر پابندی لگائی جائے ،احتجاج کے حق کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔

جج ایوا لوٹا ہیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس اتھارٹی کے پاس اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل نہیں تھے۔

سویڈن کی پولیس نے فروری میں سٹاک ہوم میں ترکی اور عراقی سفارت خانوں کے باہر قرآنی نسخوں کو نذر آتش کرنے کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ جنوری میں ہونے والے احتجاج کے بعد سویڈن بڑے پیمانے پر حملوں کا نشانہ بن گیا تھا۔

ترکی نے خاص طور پر سوئیڈن کی پولیس کو مجرم قرار دیا جس نے اس مظاہرے کی اجازت دی تھی جس میں قرآنی نسخوں کو آگ لگائی گئی۔ انقرہ نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواست کو اس وجہ سے روک دیا ہے کہ سٹاک ہوم، کرد گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ناکام رہا ہے جنہیں ترکی دہشت گردقرار دیتا ہے۔

سویڈن کے سیاست دانوں نے قرآن جلانے کے واقعے پر تنقید کی ہے،لیکن انہوں نے ساتھ ہی ساتھ آزادی اظہار کے حق کا دفاع کیا ہے۔

اسی دوران سویڈن کی سیکیورٹی سروس نے بتایا کہ منگل کی صبح وسطی قصبوں لنکوپنگ، ایسکیلسٹونا اور سٹرانگناس میں خفیہ اطلاعات پر مبنی چھاپوں میں پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔

سیکیورٹی سروس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کی نائب سربراہ سوزانا ٹری ہورننگ نے کہا کہ مقدس کتاب کو جلانے کے سلسلے میں بہت سے کیسوں پر سویڈش سیکیورٹی سروس کام کر رہی ہے، اور موجودہ کیس ان میں سے ایک ہے۔سوزان کا کہنا تھا کہ مشتبہ افراد کا تعلق بین الاقوامی اسلامی انتہا پسند گروپوں سے تھا۔

سیکیورٹی سروس نے کہا کہ پھر بھی وہ نہیں سمجھتے کہ عنقریب کوئی حملہ ہونے والا ہے۔

اس نے ایک بیان میں کہا کہ سیکیورٹی سروس کو اکثر خطرے سے بچنے کے لیے احتیاطی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہےاور اس وقت تک کارروائی کا انتظار نہیں کیاجا سکتا جب کوئی جرم سرزد ہو ہی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں