بھارت: کشمیری علیحدگی پسندوں کے مبینہ استعمال پر 14 موبائل فون ایپلی کیشنز پر پابندی

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے 14 ایسی موبائل فون ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کر دی ہے جنھیں مبینہ طور پر پاکستان میں سرگرم عسکری تنظیمیں جموں و کشمیر کے علیحدگی پسندوں اور ان کے سہولت کار وں سے رابطے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

پیر کو نئی دہلی میں بھارتی حکام نے بتایا کہ پاکستان میں ان کے بقول دہشت گرد گروپ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندوں ، ان کے اوور گراونڈ ورکروں اور دیگر علیحدگی پسندوں کے ساتھ ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو پیغامات کے تبادلے کے لیے ان ایپلی کیشنز کا استعمال کررہےہیں۔

جن مسیجنگ ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں آئی ایم او، سیکنڈ لائن، کرپ وائزر، انیگما، سیف سوئس، ویکر می، میڈیا فائر، بریار، بی چیٹ، نیڈباکس، کونیئن، ایلیمنٹ، زینگی اور تھریما شامل ہیں۔

بھارتی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں، ان کے سہولت کاروں اور علیحدگی پسندوں کو پیغام رسانی کے لیے پاکستان میں ان کے ‘ہینڈلرز ‘ ان ایپلی کیشنز کا استعمال کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان ایپلی کیشنز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجینسیز کی سفارش پر متعلقہ وزارت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000کے سیکشن 69اےکے تحت غیر قانونی قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں باضابطہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی اس شق کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بھارت کی قومی سلامتی، خودمختاری، ملک کے دفاع، ریاست کے تحفظ، غیرممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور پبلک آرڈر کے مفاد کے تحت رابطے روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔

ایکٹ کے تحت آن لائن ذرایع پر پابندیاں عائد کرنے کا اختیار شامل ہے جن میں انٹرنیٹ سروسز (آئی ایس پیز)، ٹیلی کام سروس، ویب ہوسٹنگ سروسز، سرچ انجنز، آن لائین مارکیٹ پلیسز ، وغیرہ پر قد غن لگانے کا اختیار بھی شامل ہے۔ پابندی کی خلاف وزری پر سات سال تک قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔

بھارتی حکام کے مطابق ایسی میسجنگ ایپلی کیشنز کی فہرست تیار کی گئی تھی جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کررہی ہیں۔ یہ ایپلی کیشنز بھارت کے قوانین پر عمل پیرا نہیں ہیں اور پھر نئی دہلی میں مواصلات ، الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سے درخواست کی گئی ہے کہ ان کے استعمال پر پابندی لگادی جائے۔

حکومتی ذرائع نے بتایا کہ سیکیورٹی ایجنسیاں اور خفیہ ادار ے اُن مختلف چینلز پر گہری نگاہ رکھتے ہیں جنہیں ان کے بقول دہشت گرد اور ان کے سہولت کار ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

بھارت میں انٹر نیٹ اور موبائل فون ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومتِ بھارت نے 250 سو سے زائد چینی ایپلی کیشنز پر انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی اسی شِق کے تحت پابندی عائد کرکے ان کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

جن ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں ٹک ٹوک، وی چیٹ، ہیلو، بگو لائیو، شئیر اِٹ ، پب جی، کم سکینر اور یو سی براؤزر جیسی مقبولِ عام ایپلی کیشنز بھی شامل ہیں۔

’میسجنگ ایپلی کیشنز پر پابندی سے مشکلات میں اضافہ‘

سرینگر کی ایک گھریلو خاتون نصّرت امین نے حالیہ پابندی پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اپنے ردِ عمل میں کہا: “میرا چھوٹا بھائی عمر امین سعودی عرّب میں کام کررہا ہے اور گزشتہ چند برس سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہیں رہ رہا ہے۔ سعودی عرب میں واٹس ایپ جیسی ایپلی کیشن کو ویڈیو یا آڈیو مسیجنگ کے لیےاستعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ آئی ایم او کے ذریعے رابطے میں تھے۔ اب ہم اس کا استعمال نہیں کرسکتے جو ہم جیسے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔”

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک اور شہری عبد المجید نقاطی کی دبئی میں کشمیری مصنوعات کی دکان ہے۔ اس پابندی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہم یہاں واٹس ایپ اور چند دوسری عام استعمال کی ایپلی کیشنز سے وی پی این (ورچیول پرائیویٹ نیٹ ورک) کے بغیر مکمل استفادہ نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ واٹس ایپ کو آڈیو اور ویڈیو پیغامات کے لیے استعمال کرنے والے پر یہاں پانچ لاکھ درہم (تقریبا” ایک کروڑ بارہ لاکھ بھارتی روپے اور 3 کروڑ چھیاسی لاکھ پاکستانی روپے) کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اب آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ واٹس ایپ کا اس طرح کا استعمال ہمیں کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ اور ان جیسے دیگر لوگ کشمیر میں اپنے اہلِ خانہ، دوستوں اور کاروباری ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے دوسری اپلیکیشنز کا استعمال کرتے ہیں۔ نئی پابندی کے بارے میں جان کر دکھ ہوا کہ اب ان میں سے بیشتر کا بھارت میں استعمال ممکن نہیں ہے۔

’رابطے کے اور ذرائع بھی ہیں‘

تاہم ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں پیش آنے والے کئی پُر تشدد اور دہشت گردی کے واقعات اور بھاری رقوم کے غیر قانونی لین دین کے کئی معاملات میں تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان سرگرمیوں میں وہ ایپلی کیشنز استعمال ہوئی ہیں جن پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

پولیس افسر نے مزید کہا کہ بھارت ان ممالک میں شامل ہے جہاں موبائیل فون ٹیرف سب سے کم اور سستا ہے۔ لوگ اس طرح کی ڈیفالٹ ایلیکیشنز کا استعمال کیے بغیر بہت ہی کم خرچے پر ویڈیو اور آڈیو کالز کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ متحدہ عرب امارات اور دوسرے خلیجی ممالک میں اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ اس طرح کے رابطے میں رہنا چاہتے ہیں وہ بوٹم جیسی ایپلی کیشنز کا آسانی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں جس پر وہاں کوئی پابندی نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں