کرم: پارا چنار میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں 7 شیعہ اساتذہ سمیت 8 افراد ہلاک، حالات کشیدہ

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے/ بی بی سی) افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع کرم میں مبینہ فرقہ ورانہ کشیدگی کے باعث دو مختلف واقعات میں سات اساتذہ سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

ہلاک ہونے والے چھ اساتذہ کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے بتایا جا رہا ہے۔

کرم پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں اساتذہ میں میر حسین، جواد حسین، نوید حسین، جواد علی، محمد علی اور علی حسین شامل ہیں جن کا تعلق طوری بنگش قبائل سے بتایا جارہا ہے جبکہ وہ تری منگل ہائی سکول میں امتحانی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔

قبل ازیں پارا چنار میں ایک چلتی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک استاد قتل ہوگئے.

پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑی میں قتل ہونے استاد محمد شریف کا تعلق بھی تری منگل ہائی سکول سے تھا اور وہ بھی اسی سکول ڈیوٹی کے لئے جار رہے تھے جہاں دیگر اساتذہ قتل ہوئے۔

ضلع کرم کے مرکزی قصبے پارا چنار سے تعلق رکھنے والے صحافی عظمت علیزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحدی قصبے تری منگل سے ملحقہ گاؤں خروٹ میں جمعرات کی صبح اہلِ سنت مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

اُن کے بقول خروٹ گاؤں میں ہونے والے واقعے کے رد عمل میں متعدد مسلح افراد نے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول کے امتحانات کی نگرانی کرنے والے اساتذہ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں سات اساتذہ ہلاک ہو گئے۔

واقعے کے بعد ضلع کرم میں صورتِ حال کشیدہ ہے اور ضلعی انتظامیہ نے امتحانات ملتوی کر کے علاقے میں سیکیورٹی سخت کر دی ہے۔

خیال رہے کہ ضلع کرم کے علاقے پاراچنار میں اس سے قبل بھی فرقہ ورانہ فسادات پھوٹتے رہے ہیں جس میں اب تک درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کرم محمد عمران نے غیر ملکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ کے نمائندے نذرالاسلام کو بتایا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان 1909 سے زمین کا ایک تنازع چلا آ رہا ہے۔

اُن کے بقول جمعرات کی صبح پہلے شیعہ کمیونٹی کے افراد نے ایک اہلِ سنت مسلک کے شخص کو ہلاک کیا جس کے جواب میں اہلِ سنت کے افراد نے اسکول کے عملے پر فائرنگ کی۔

محمد عمران کے بقول حملہ آوروں نے اساتذہ پر فائرنگ سے قبل باہر کھڑی پولیس وین پر بھی فائرنگ کی جس سے کچھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

ڈی ایم ایس کرم پارا چنار ڈاکٹر قیصر کے مطابق ابھی تک ہسپتال میں کوئی ڈیڈ باڈی منتقل نہیں کی گئی تاہم ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

پاراچنار کے مقامی ذرائع کے مطابق صبح کے وقت مقامی سکول ٹیچر کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا جس کے جواب میں سکول میں گھس کر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد اساتذہ ہلاک ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر اپر کرم نےغیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس حوالے سے سرکاری طور پر کسی بھی چیز کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ سرحدی علاقے میں ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ تری مینگل نام کا یہ علاقہ پہلے ہی فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں ہے۔

تاہم ضلعی انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ ایک زمینی تنازع ہے لیکن اس کو فرقہ واریت کا رنگ دیا جارہا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری کردہ ایک پیغام میں بتایا گیا کہ گذشتہ روز دو گروپوں میں فائرنگ اور ناخوشگوار واقعات دراصل ایک زمینی تنازعے کا تسلسل ہے جس کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق متعلقہ سکیورٹی ادارے اور علاقے کے عمائدین اس مسئلے کا پر امن اور دیرپا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ عوام کسی قسم کی بے بنیاد افواہوں پر کان نہ دھریں۔‘

ان واقعات کے بعد ضلع بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، ضلع بھر میں آمد و رفت کے راستے سیکورٹی خدشات کے باعث بند کردئیے گئے جبکہ کوہاٹ تعلیمی بورڈ کے زیر اہتمام 28 اپریل سے جاری میٹرک امتحانات نامعلوم مدت کے لئے ملتوی کردئیے گئے.

وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز ساجد حسین طوری، انجمن حسینیہ کے سیکٹری عنایت حسین طوری ، تحریک حسینی کے صدر علامہ سید تجمل حسین نے فائرنگ کے واقعے کے بعد بے گناہ اساتذہ کے قتل کو بہیمانہ اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس قسم واقعات سے ضلع کرم کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے رہنماؤں نے اس قسم عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں