پاراچنار: حملہ آوروں نے اساتذہ کو ہلاک کرنے سے قبل انکے شیعہ ہونے کی تصدیق کی، پولیس

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں تدریس کے شعبے سے وابستہ سید جعفر طوری جمعرات کو فائرنگ کے دو علیحدہ واقعات میں پانچ اساتذہ سمیت آٹھ افراد کی ہلاکت پر کافی پریشان ہیں۔

ان کے بقول “ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے حساس ضلع کرم میں ایک قتل یا معمولی نوعیت کا تنازع بھی کبھی کبھی مہینوں یا سالوں تک سنی اور شیعہ کمیونٹی کے درمیان تناؤ کا سبب بنتا ہے جس پر بروقت قابو پانا بہت ضروری ہے۔”

پولیس، مقامی عمائدین اور صحافیوں کے مطابق ضلع کرم کے اپر کرم کے علاقے شلوزان روڈ پر جمعرات کی صبح ایک چلتی گاڑی پر فائرنگ سے محمد شریف نامی شخص اُستاد کی ہلاکت ہوئی جن کا تعلق سنی مسلک سے تھا۔

اس واقعے کے کچھ گھنٹوں بعد اپر کرم ہی کے علاقے تری مینگل میں ایک اسکول میں میٹرک کے سالانہ امتحانات کے دوران ڈیوٹی پر موجود چار اساتذہ اور تین مزدوروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے اساتذہ کو ہلاک کرنے سے قبل ان کے شیعہ ہونے کی تصدیق کی۔

فائرنگ کے یہ دونوں واقعات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے کے اندر ہی رونما ہوئے ہیں۔

واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی کے سبب انٹرنیٹ سروس اور تمام مرکزی سڑکیں بند کر دی گئیں جب کہ ضلع کرم میں جاری میٹرک کے امتحانات تاحکمِ ثانی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

کرم، فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے حساس ضلع

چند سال قبل خیبر پختونخوا صوبے میں ضم ہونے والا قبائلی ضلع کرم ملکی سطح پر فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے حساس خطوں میں سے ایک ہے۔

کرم کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں خوست ،ننگرہار اور پکتیاکے ساتھ ساتھ پاکستان کے سابق قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔

قبائلی علاقوں میں کرم ایجنسی وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان بدترین لڑائیوں کی ابتدا ہوئی۔ خیبر پختونخوا صوبے کا یہ واحد ضلع ہے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں آباد ہے۔

سن 2017 میں کرم ضلع میں دہشت گردی کے پانچ مختلف واقعات میں لگ بھگ 132 افراد ہلاک اور 400 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان واقعات میں سبزی منڈی، خواتین کی مارکیٹ اور طوری مارکیٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

کرم کے حالات محض اس علاقے تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے باعث دو قریبی اضلاع ہنگو اور کوہاٹ بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔

سن 2007 سے لے کر 2012 تک کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کے سبب اپر کرم میں بسنے والے لوگ پاکستان کے دوسرے حصوں میں جانے کے لیے پہلے افغانستان جاتے تھے اور وہا ں سے طورخم کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان علاقوں کو پشاور اور بنوں جیسے شہروں سے ملانے والی واحد سڑک لوئر کرم سے گزرتی تھی جہاں کے سنّی باشندوں نے اسے اپر اور وسطی کرم میں رہنے والے شیعہ قبائل کے لیے بند کر رکھا تھا۔ بالآخر سکیورٹی فورسز نے سڑک کو آمد و رفت کے لیے کھول کر لوگوں کے تحفظ کے لیے نفری بھی تعینات کر دی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سید جعفر طوری کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تناؤ کے دوران فریقین عام لوگوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتتے۔

ان کے بقول “ اب تک لوگوں کو گاڑیوں سے نکال کر لوگوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کرنے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں۔”

فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ

سیکیورٹی ماہرین کے مطابق کرم کی سرحدیں افغانستان کے جن صوبوں سے ملتی ہیں، وہ علاقے 80 کی دہائی سے لے کر اب تک القاعدہ اور اس سے وابستہ جہادی تنظیموں کے اہم اور مستقل مراکز رہے ہیں۔

شدت پسندی کے موضوعات پر لکھنے والے پشاور کے سینئر صحافی فخر کاکا خیل کہتے ہیں کہ کرم کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہ علاقہ مختلف جہادی قوتوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر بھی استعمال ہو تا رہا ہے۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ 80 کی دہائی سے لے کر اب تک کبھی بھی پرامن نہیں رہا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فخر کاکا خیل کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکی اور اتحادی افواج کے حملے کے بعد طالبان کے اہم دھڑے حقانی نیٹ ورک کی یہ کوشش تھی کہ کرم کے ذریعے طالبان شدت پسندوں کو پاکستان کے قبائلی اضلاع میں منتقل کیا جائے۔ لیکن کرم کی سرحدوں پر آباد شیعہ قبائل ان کے لیے مسئلہ رہے ہیں۔

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کا کردار

سن 2007 کے دوران جب بیت اللہ محسود کی سربراہی میں کالعدم شدت پسند تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بنیاد رکھی گئی تو اس گروہ نے جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے بعد جس علاقے پر انتہائی حد تک توجہ مرکوز رکھی وہ کرم ہی تھا۔

فخر کاکا خیل کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی تشکیل کے بعد کرم میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔

کرم کے ایک سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹی ٹی پی سے پہلے یہاں کی سنی آبادی کو حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔

اُن کے بقول ٹی ٹی پی نے بھی کرم کا خطہ تنظیمی طور پر قاری حسین اور حکیم اللہ محسود جیسے انتہائی اہم طالبان کمانڈروں کے سپرد کیے رکھا تھا۔

ان کے بقول، ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ درہ آدم خیل سے طارق آفریدی، اورکزئی سے ملانورجمال (المعروف ملاطوفان) اورخیبر سے منگل باغ اورحاجی محبوب کے شدت پسند گروپوں نے بھی کرم میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھیں۔

بعض مستندذرائع کے مطابق کرم ایجنسی میں شیعہ قبائل نے بھی اپنے دفاع کے لیے مسلح تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں جن کے نام مہدی ملیشیا، حیدری طالبان اور کرم حزب اللہ ہیں۔

نقل مکانی اور زمینوں کے تنازعات

ماہرین اور مقامی عمائدین کے مطابق کرم میں شیعہ اور سنی کمیونٹیز کے درمیان تشدد کی ایک وجہ ان کے زمینوں کے تنازعات کا حل نہ ہونا بھی ہے۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر سید سیف الاسلام نے جمعرات کی ہلاکتوں کو بھی زمینی تنازع کا شاخسانہ قرار دیا ۔ ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ ‏اس تنازعے کے باعث اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارہ انٹرنیشنل کونسل برائے مذہبی امور کرم میں فرقہ وارانہ تناؤ کو کم کرنے کی کوششوں میں فعال رہا ہے۔

ادارے کے سربراہ محمد اسرار مدنی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کرم میں کئی دہائیوں سے جاری فرقہ وارانہ تناؤ کے سبب سینکڑوں خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

ان کے بقول ـ”اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کرم کے زیرِیں علاقے صدہ جو سنی اکثریتی آبادی ہے میں ایک بھی شیعہ گھرانہ موجود نہیں ہے جب کہ ضلعی ہیڈکوارٹر پاراچنار جو شیعہ اکثریتی آبادی ہے وہاں کوئی بھی سنی گھرانہ آباد نہیں ہے۔”

اسرار مدنی نے کہا کہ لوئر کرم کے علاقے صدہ میں ابھی بھی شیعہ کمیونٹی کی قیمتی آبائی جائیدادیں موجود ہیں جو انہیں 1983 اور اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے چھوڑنا پڑیں۔ اسی طرح پاراچنار میں بھی سینکڑوں ایسے گھر واقع ہیں جو سنی خاندانوں کو 2007 کے فسادات میں چھوڑنے پڑے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت زمینوں کے یہ تنازعات حل نہیں کرے گی یہ واقعات فرقہ وارانہ دہشت گردی کی شکل اختیار کرتے رہیں گے۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ نامی امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ محقق عارف رفیق کہتے ہیں کہ جمعرات کو کرم میں ہونے والی ہلاکتوں میں دیرینہ قبائلی دشمنیوں کے اشارے مل رہے ہیں جس کی فرقہ وارانہ جہت ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ کرم میں یہ واقعات ایسے وقت میں رونما ہوئے جب صوبے بھر میں تحریک طالبان پاکستان جیسی شدت پسند تنظیمیں دوبارہ حملے کر رہی ہے۔

ان کے بقول پاکستانی ریاست کرم کے قبائل کے مابین تنازعات کوحل کرنے کے قابل ہے لیکن اگر ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی سنی جہادی گروپس آپس میں گھل مل جاتے ہیں تو اس سے کرم میں فرقہ وارانہ تشدد کی پچھلی لہر جیسے حالات دیکھے جاسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں