بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بلاول بھٹو کو ’دہشتگردی کی صنعت کا ترجمان‘ قرار دیدیا

گوا + نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے بعد بالاخر یہ بحث تو ختم ہوئی کہ پاکستان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ نے ہاتھ ملائے یا صرف ہاتھ جوڑ کر ایک دوسرے کو ’نمستے‘ کہا۔

انڈین میڈیا نے گذشتہ روز ایک انٹرویو میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے پوچھا کہ کیا انھیں انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر سے ہاتھ ملانے کا موقع ملا؟ اس پر بلاول نے جواب دیا کہ ’اپنی تمام غیر رسمی ملاقاتوں میں، ہم ہمیشہ ہاتھ ملاتے ہیں۔ ظاہر ہے (ہم نے اس موقع پر بھی ہاتھ ملائے)۔ ہم نے دیگر وزرائے خارجہ کے ساتھ ڈنر کے دوران گفتگو کی، جیسا کہ اس طرح کی تقاریب میں ہوتا ہے، (مگر) ہم نے دو طرفہ رابطے نہیں کیے۔‘

گوا میں ایس سی او اجلاس کی نمایاں جھلکی بھی یہی تھی کہ پاکستان اور انڈیا کے نمائندوں نے اگرچہ اتنے قریب آ کر بھی دو طرفہ رابطے بحال نہ کیے مگر اپنی اپنی حیثیت میں ایک دوسرے کو خوب ’منھ توڑ جواب‘ دیے۔

دونوں رہنماؤں نے بات چیت کے امکان کو رد کیا ہے۔ بلاول کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان کوئی بیک ڈور رابطے بھی نہیں ہو رہے۔

بلاول: ’ہندو جذبات ابھارنا انسداد دہشتگردی کی اچھی حکمت عملی نہیں‘

اخبار دی ہندو کو دیے انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کی گئی جس کے بعد انڈیا سے رابطے بحال کرنے والوں کے لیے اپنے موقف پر قائم رہنا مشکل ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی یہی واحد وجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایس سی او اجلاس کی میزبانی کرنے والے ملک سے دو طرفہ ملاقات کی درخواست نہیں کی تھی۔

بلاول نے کہا کہ ’پانچ اگست کے اقدام نے بات چیت کے دروازے بند کر دیے۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جولائی کے دوران انڈیا میں ایس سی او اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی شرکت کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

’آپ ہائپر ہو رہے ہیں۔۔۔‘

جب بلاول بھٹو نے انڈیا ٹوڈے کو دیے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم نے کلبھوشن یادیو کو پکڑا، ہم آپ کو انھیں دِکھا سکتے ہیں، وہ نیوی کمانڈر تھے، کیا یہ جائز الزام نہیں؟‘ تو اینکر پرسن راجدیپ سردیسائی نے کہا ’اجمل قصاب کون تھا؟‘

جب کچھ گرما گرمی بڑھی تو بلاول کہنے لگے ’میں آپ سے واضح طور پر بات کر رہا ہوں۔ میں جذبات کے بغیر حقائق بیان کر رہا ہوں۔ لیکن آپ ہائپر ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ممبئی حملوں کے ٹرائل کی تکمیل کے لیے انڈیا گواہوں کے بیانات کے لیے پاکستان سے تعاون کرے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ انڈیا میں ہندو جذبات کو ابھارنے کے لیے دہشتگردی کی بات کی جاتی ہے جو درحقیقت اسلاموفوبیا ہے۔ ’یہ ایک اچھی انتخابی حکمت عملی ہو سکتی ہے، لیکن انسداد دہشتگردی کی اچھی حکمت عملی نہیں۔‘

اس انٹرویو میں ایک سوال پر انھوں نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ’گجرات کا قصاب‘ کے الفاظ نہیں دہرائے بلکہ کہا کہ ’ہمیں لفاظ کے انتخاب پر مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ سیاست اور سفارتکاری کسی کی ذات کے گرد نہیں گھومتی۔‘

انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کے مسئلے پر انڈیا اور پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک کو تعاون کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے خدشات سننے چاہییں۔ ان کے مطابق فی الحال دونوں ملکوں کے درمیان کوئی بیک چینل بات چیت نہیں ہو رہی۔

پھر پاکستان کے گِرتے زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق سوال پر بلاول نے کہا ’تو کیا میں اپنے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے کشمیر میں ناانصافیاں بھول جاؤں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات اپنے مقررہ وقت پر رواں سال ہی ہوں گے ’چاہے ستمبر، اکتوبر یا نومبر، جیسی آئین میں اجازت ہوگی۔‘

انھوں نے کہا کہ انھیں عمران خان سے ڈر نہیں لگتا، وہ انھیں کئی بار انتخابات میں شکست دے چکے ہیں۔

جب اینکر نے بلاول سے پوچھا کہ کیا وہ ’مستقبل کے وزیر اعظم سے بات کر رہے ہیں؟ آپ کے ناقدین آپ کو انٹرن وزیر خارجہ پکارتے ہیں؟‘ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب لوگ مجھے انڈر ایسٹیمیٹ کرتے ہیں (چھوٹا سمجھتے ہیں)۔

’عمران خان مجھے بچہ کہہ کر چھیڑتے تھے، پھر میں نے عدم اعتماد کی حکمت عملی بنائی جس سے ان کی حکومت چلی گئی۔۔۔ میں اسی وجہ سے سیاسی و سفارتی سطح پر اچھی کارکردگی دیتا آیا ہوں۔‘

جے شنکر نے بلاول کو ’دہشتگردی کی صنعت کا ترجمان‘ کہا

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دہشت گردی کو سفارتی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کیے جانے کی بات پر انڈین وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھا کرتے بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔

گوا میں ہونے والے ایس سی او اجلاس کے بعد میڈیا کے سوالوں کے جواب میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ ’دہشت گردی کو فروغ دینے والے، اس کا جواز دینے والے اور، معذرت کے ساتھ، دہشت گردی کی صنعت کے ترجمان ملک پاکستان کو اس کی پوزیشن کا جواب دیا گیا ہے۔‘

’دہشت گردی سے متاثرہ فریق، دہشت گردی کرنے والے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔‘

بلاول بھٹو اور پاکستان سے متعلق کے حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں انھوں نے مزید کہا کہ ’بلاول بھٹو کے ساتھ ایس سی او کانفرنس میں وہی سلوک کیا گیا جو دہشت گردی کی صنعت کو فروغ دینے والے ملک کے ترجمان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘

جے شنکر کے مطابق ’دہشت گردی سے متاثرہ خود کا دفاع کرتے ہیں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہیں، یہی ہو رہا ہے۔‘

جے شنکر نے کہا ’ان کا یہاں آ کر ایسے منافقانہ بیان دینا کہ جیسے ہم ایک کشتی کے سوار ہیں۔ وہ دہشت گردی کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے موقف واضح رکھیں۔‘

انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ چین پاکستان کی راہداری کے حوالے سے ایس سی او اجلاس میں واضح کیا گیا کہ رابطے ترقی کے لیے اچھے ہیں لیکن رابطے علاقائی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔‘

جے شنکر کے مطابق سی پیک انڈیا کی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

بلاول اور جے شنکر کے درمیان سرد مہری اور نمستے

پانچ مئی کی صبح دونوں رہنما کیمرے کے سامنے نظر آئے، اگرچہ بظاہر سرد انداز میں۔ وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کرنے والے رہنماؤں کا استقبال کرتے ہوئے جے شنکر نے ’نمستے‘یعنی ہاتھ جوڑ کر انڈیا کے ایک روایتی انداز سے بلاول بھٹو کا استقبال کیا، اور انھوں نے بھی دوسرے وزرائے خارجہ کی طرح اسی انداز میں جواب دیا۔ اس کے بعد دونوں لیڈر بنا مصافحہ کئے کچھ دوری پر خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔

جے شنکر نے دیگر ممالک کے رہنماؤں سے بھی مصافحہ نہیں کیا تھا لیکن فوٹوز کلک ہونے کے چند سیکنڈ بعد جے شنکر مسکراتے ہوئے بھٹو سے کچھ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں اور دوسرے لیڈروں کی طرح انھیں بھی جانے کا اشارہ کرتے ہیں۔ بھٹو اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

اس میں خاص بات یہ ہے کہ دونوں لیڈر جب تک کیمرے پر تھے تب تک ایک دوسرے سے بالکل بات کرتے نظر نہیں آئے، جب کہ جے شنکر سٹیج پر آنے والے دیگر لیڈروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

بعد میں وزرائے خارجہ کے گروپ فوٹو میں جے شنکر، میزبان کے طور پر درمیان میں کھڑے ہیں، اور بلاول اور روسی وزیر خارجہ لاوروف ایک ساتھ جے شنکر سے ایک فرد دور کھڑے ہیں۔

حالانکہ دونوں رہنماؤں نے مبینہ طور پر چار مئی کو ایس سی او ڈنر میں مصافحہ کیا تھا لیکن اس پروگرام میں میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں تھی اور بعد میں نہ ہی کوئی تصویر یا متعلقہ معلومات جاری کی گئیں۔

’بلاول نے انڈیا جا کر کیا حاصل کیا؟‘

سوشل میڈیا پر بھی ایس سی او اجلاس کو تبصروں کا سلسلہ جاری ہے تاہم لوگوں کو اس میں باہمی تعلقات میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

صارف اسری نے لکھا کہ ’ہمارے صحافیوں کی ساحل سمندر سے سیلفیاں اور امن کی آشا جیسے ہیش ٹیگز سے تبدیلی نہیں آنے والی۔‘

سید مزمل نے کہا کہ ’انڈیا سے جھگڑا ہمارے نوے فیصد مسائل کی وجہ ہے۔ ہمارے پاس جنگ کے بڑے ہتھیار ہیں مگر اپنے لوگوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں۔‘

انڈین صارف رام سبھرامنیم نے لکھا کہ ’جے شنکر نے بلاول کو انڈیا بلا کر ان کی عزت اچھالی۔ یہ ہماری تہذیب نہیں۔ سر اگر آپ نے ایسا رویہ اختیار کرنا ہے تو انھیں آئندہ مت بلائیں۔ آپ اپنی سیاست کے لیے ہماری روایات سے انحراف کر رہے ہیں۔‘

ادھر پاکستانی صارف نادیہ کے مطابق جے شنکر نے واضح کیا ہے کہ پاکستان سے کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ان کی رائے میں بلاول کا دورہ ’غلط تھا، عزت دار شہری اسے اپنی توہین سمجھیں گے۔‘

جبکہ نجمہ نامی صارف نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا جے شنکر نے جنوبی ایشیائی آداب کی خلاف ورزی کی جس کے تحت آپ اپنے گھر آئے مہمانوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے۔

جبکہ فریحہ نے کہا کہ ’پڑھے لکھے، تجربہ کار جے شنکر اس ملک کے ترجمان ہیں جس نے متنازع علاقے کو اپنے اندر ضم کر لیا ہے۔ بلاول سے ناراضی کو اپنی رائے پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔‘

مگر بعض صارفین اس بات پر بھی اعتراض کر رہے ہیں پاکستانی وزیر خارجہ نے آخر انڈیا جا کر کیا حاصل کیا۔

تو اس سلسلے میں تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے کہا کہ ’پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے انڈیا میں ایس سی او اجلاس میں شرکت کرنے پر کافی تنقید کی جا رہی ہے۔ لیکن انھوں نے وہی حاصل کیا جو اسلام آباد چاہتا تھا: ایس سی او میں بات چیت میں شرکت اور انڈیا کے علاوہ تمام ایس سی او ارکان سے ملاقاتیں۔‘

یوسف نذر نے کہا کہ ایس سی او کی قیادت چین کرتا ہے اور یہ اجلاس چین کی مرضی سے انڈیا میں ہوا۔ ’پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کرنی ہی تھی چاہے یہ کہیں پر بھی ہو رہا ہوتا۔۔۔ وہاں جانا دانشمندانہ فیصلہ تھا۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں