بھارتی ریاست منی پور میں پرتشدد واقعات میں 60 سے زائد افراد ہلاک، فوج نے کنٹرول سنبھال لیا

سرینگر (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں قبائلی اور غیر قبائلی افراد کے درمیان تصادم کے نتیجے میں چار روز کے دوران 60 سے زائد ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ فوج نے علاقے کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔

جھڑپوں کے دوران اربوں روپے کی نجی اور سرکاری املاک تباہ ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

واضح رہے کہ ریاست منی پور کے مشرقی سرحد بھارت کے پڑوسی ملک میانمار سے ملتی ہے اور اس ریاست کو ایک حساس سرحدی ریاست تصور کیا جاتا ہے۔ اس ریاست کے پڑوس میں ناگالینڈ، میزورام اور آسام کی ریاستیں ہیں۔

ہفتے کو منی پور کے چورا چندپور ضلعےمیں اُس وقت چار افراد کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا جب سیکیورٹی فورسز اس شورش زدہ علاقے سے میٹی طبقےسے وابستہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کررہی تھیں۔

چورا چندر پور میں حالیہ دنوں میں میٹی اکثریتی طبقے اور کوکی قبائلی فرقے کے درمیان بد ترین فسادات ہوئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق تازہ فسادات کا آغاز بُدھ کو اسی علاقے سے ہوا تھا اور بعد میں منی پور کے کئی دوسرے علاقے بھی تشدد کی زد میں آ گئے تھے۔

رواں ہفتے منی پور کے آٹھ اضلاع میں حالات خراب ہونے کے بعد ریاستی حکومت نے کرفیو نافذ کردیا تھا جب کہ متاثرہ علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کردی گئیں۔

جمعے کی شام کو چورا چند پور میں منی پور کے پہاڑی علاقوں سے آنے ولے جنگجوؤں اور انڈین ریزرو سروسز بٹالین (آئی آر بی) کے درمیان ہوئی دو الگ الگ جھڑپوں میں پانچ جنگجو ہلاک اور دو سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

حکام نے بتایا کہ چورا چند پور میں توربُنگ کے مقام پر جنگجوؤں نے آئی آر بی کے جوانوں پر فائرنگ کردی اور جوابی کارروائی میں ایک جنگجو مارا گیا اور آئی آر بی کے دو سپاہی زخمی ہوگئے۔اطلاعات کے مطابق اسی طرح کے ایک اور مقابلے میں چار جنگجو مارے گئے ہیں۔

جمعرات کو صوبائی حکومت نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنےکا اختیار دیا تھا۔ اس سے پہلے متاثرہ علاقوں کو فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔

امپھال میں بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ13 ہزار افراد کو متاثرہ علاقوں سے بحفاظت نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے جن میں چورا چند پور، موریح، کاکچنگ اور کنگپوکپی اضلاع میں قائم فوج کے کیمپ بھی شامل ہیں۔

تاہم امپھال کے کئی علاقوں میں فسادات اور اس دوران حریف فرقوں کی طرف سے ایک دوسرے کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا سلسلہ اگرچہ ماند پڑگیا ہے لیکن رکا نہیں ہے۔

واضح رہے کہ منی پور کی غیر قبائلی آبادیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں قبائل کا درجہ دیا جائے تاکہ ان کی آبائی زمینوں، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل سکے۔لیکن منی پور کے قدیم قبائلی اس مطالبے کی مخالفت کررہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے حالیہ ہفتوں میں احتجاجی جلسے اور جلوسوں کا اہتمام بھی کیا ہے۔

بھارت کے وزیرِ اخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور اسے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔

سرکاری طور پر تازہ فسادات میں مرنے والوں کی تعداد 54 سے 60 تک بتائی جاتی ہے غیر سرکاری اطلاعات میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسی سے زیادہ لوگ تشدد کی نذر ہوگئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں