کرم: پاراچنار میں شیعہ اساتذہ اور مزدوروں کے قتل کیخلاف طوری بنگش قبائل کا احتجاج

اسلام آباد (ڈیلی اردو رپورٹ) صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار میں گزشتہ ہفتے فائرنگ کے مختلف واقعات میں چار اساتذہ اور تین مزدوروں سمیت آٹھ افراد کے قتل کے خلاف قبائلیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

تفصیلات کے مطابق اہل تشیع کے چار اساتذہ اور تین مزدوروں کی ہلاکتوں کے خلاف طوری بنگش قبیلے سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے پاراچنار پریس کلب کی جانب پیدل مارچ کیا جہاں قبائلی رہنماؤں نے ریلی سے خطاب کیا۔

احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے قبائلی رہنما سید محمد سید اخلاق حسین اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ جمعرات کے روز نامعلوم افراد کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل کے بعد مسلح افراد ہائی اسکول تری منگل میں گھس گئے اور چار شیعہ اساتذہ اور تین ڈرائیور قتل کردئیے، قتل کیے گئے تینوں ڈرائیوروں کا تعلق زیڑان قبائل سے تھا۔

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ زیڑان قبائل کا کسی کے ساتھ کوئی زمینی تنازع نہیں، اس لیے بعض افسران کی جانب سے بے گناہ افراد کے قتل کو زمینی تنازع قرار دینا افسوس ناک ہے۔

رہنماوں نے قتل کے وقت اسکول میں موجود ملازمین کے خلاف بھی مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بے گناہ افراد کے قاتلوں کو سزا نہ دی گئی تو وہ احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔

انہوں نے مشیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کی بے حس پالیسی کی بھی مذمت کی اور کہا کہ محکمہ تعلیم کے افسران نے اساتذہ کے جنازوں میں شرکت تک کرنی گوارہ نہ کی۔

انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کا مشترکہ پریس ریلیز

انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کی جانب سے سانحہ تری منگل کے حوالے سے جاری پریس ریلیز جاری میں کہا گیا کہ 4 مئی کو ہونے والے واقعات کی انتظامیہ اور بعض میڈیا ذرائع کی جانب سے حقائق کے برعکس تصویر کشی کی گئی اور مذکورہ واقعات کو شاملاتی تنازعات سے جوڑا گیا جو کہ سراسر غلط ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پہلا واقعہ شلوزان روڈ پر پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے ایک شخص محمد شریف کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جس سے وہ شدید زخمی ہوا جسے فوری طور زخمی حالت میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے بعد انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کے رہنماؤں نے واقعے کی شدید مذمت کی اور حکومت سے فوری تفتیش کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس واقعے کے رد عمل میں تری منگل ہائی اسکول میں تعینات شیعہ چار اساتذہ جو کئی برسوں سے مسلسل فرائض انجام دے رہے تھے اور تین شیعہ ڈرائیوروں سمیت تمام افراد کو اسٹاف روم میں بے دردی سے قتل کردیا گیا حالانکہ ان سات افراد کا تعلق پیواڑ سے نہیں تھا اور یہ تمام افراد ضلع کرم کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

پریس ریلیز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ تری منگل ہائی اسکول میں ڈیوٹی پر مامور پولیس سپاہی، ہیڈ ماسٹر اور کلاس فور کے ملازمین کو فوری گرفتار کیا جائے اور ان سے باقاعدہ تفتیش کا اغاز کیا جائے۔

امن جرگہ منعقد کیا گیا

ضلع کرم میں حالات معمول پر لانے کے لیے امن جرگہ منعقد ہوا جس میں ضلع کرم میں پائیدار امن کے حوالے سے کئی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

گورنر کاٹیج پاراچنار میں منعقدہ جرگہ میں وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز ساجد حسین طوری، کمشنر کوہاٹ ڈویژن سید محمد علی شاہ، ڈی آئی جی کوہاٹ شیر اکبر خان، بریگیڈیئر شہزاد عظیم، ڈپٹی کمشنر سید سیف الاسلام شاہ اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

جرگہ میں صرف امن کے ایجنڈے پر بات چیت کی گئی اور پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے اقدامات پر زور دیا گیا۔

جرگہ سے اپنے خطاب میں قبائلی رہنما عنایت حسین طوری، سلیم خان، فخر زمان، پرنسپل اقبال حسین نے کہا کہ اسکول میں موجود اسٹاف اور کلاس فور ملازمین کو بھی شامل تفتیش کیا جائے اور میٹرک کے امتحانات جاری رکھے جائیں۔

جرگہ سے اپنے خطاب میں کمشنر کوہاٹ کا کہنا تھا کہ قیام امن اولین ترجیح ہے اور قیام امن کے حوالے سے ہر قسم ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے اسکول کے اندر اساتذہ اور بے گناہ افراد کے قتل کو افسوسناک قرار دیا اور واقعے میں ملوث عناصر کو فوری طور بے نقاب کرنے اور عبرتناک سزا دینے پر زور دیا۔

واقعہ کیسے پیش آیا

پولیس، مقامی عمائدین اور صحافیوں کے مطابق ضلع کرم کے اپر کرم کے علاقے شلوزان روڈ پر جمعرات کی صبح ایک چلتی گاڑی پر فائرنگ سے محمد شریف نامی شخص اُستاد کی ہلاکت ہوئی جن کا تعلق سنی مسلک سے تھا۔

اس واقعے کے کچھ گھنٹوں بعد اپر کرم ہی کے علاقے تری مینگل میں ایک اسکول میں میٹرک کے سالانہ امتحانات کے دوران ڈیوٹی پر موجود چار اساتذہ اور تین مزدوروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے اساتذہ کو ہلاک کرنے سے قبل ان کے شیعہ ہونے کی تصدیق کی۔

فائرنگ کے یہ دونوں واقعات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے کے اندر ہی رونما ہوئے ہیں۔

واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی کے سبب انٹرنیٹ سروس اور تمام مرکزی سڑکیں بند کر دی گئیں جب کہ ضلع کرم میں جاری میٹرک کے امتحانات تاحکمِ ثانی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

کرم پولیس کا بیان

کرم پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں اساتذہ میں سید حسین ایم فل، مہدی حسین ایم فل، لیاقت حسین، سید علی شاہ، جواد علی ، محمد علی اور علی حسین شامل ہیں جن کا تعلق طوری بنگش قبائل سے بتایا جارہا ہے جبکہ وہ تری منگل ہائی سکول میں امتحانی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔

قبل ازیں پارا چنار میں ایک چلتی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک استاد قتل ہوگئے.

پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے اساتذہ کو ہلاک کرنے سے قبل ان کے شیعہ ہونے کی تصدیق کی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑی میں قتل ہونے استاد محمد شریف کا تعلق بھی تری منگل ہائی سکول سے تھا اور وہ بھی اسی سکول ڈیوٹی کے لئے جار رہے تھے جہاں دیگر اساتذہ قتل ہوئے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا ہے؟

ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پارا چنار کے مطابق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق تمام سات افراد کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی جبکہ ان میں سے دو افراد کے گلے کاٹنے کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جن افراد کے گلے کاٹنے کے نشانات پائے گئے ہیں ان کی موت پہلے گولی لگنے سے ہو چکی تھی۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز اساتذہ کو فائرنگ کر کے قتل کیے جانے کے بعد پارا چنار میں اساتذہ کی مختلف تنظیموں نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا۔

اساتذہ کے مطابق ’کرم ضلع میں اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا جب تک اساتذہ کو مکمل تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں