پاکستانی شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانا انسانی حقوق کے عالمی قوانین کیخلاف ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

لندن (ڈیلی اردو/وی او اے) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے کہا ہے کہ پاکستان میں عام شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانا بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہو گی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی کنونشن برائے سماجی و سیاسی حقوق کے آرٹیکل 14 کی توثیق کی ہے۔ یہ آرٹیکل قانون کے مطابق کسی بھی معاملے میں مجاز، آزاد اور غیر جانب دار عدالت میں مقدمے کو یقینی بنانے سے متعلق ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب پاکستانی فوج نے آرمی کی تنصیبات پر حملوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کی منظوری حکومت اور عسکری اداروں پر مشتمل فورم قومی سلامتی کمیٹی نے بھی دے دی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی فوج میں قائم عدالتی نظام کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس ملک کی آزاد عدالتیں نہیں ہیں جب کہ ملٹری کورٹس فوج میں نظم و ضبط میں مہارت رکھتی ہیں اور ان کا نظام اور قائم کرنے کا طریقہ بھی اسی کی مطابقت میں ترتیب دیا گیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی معلومات جمع کی ہیں جن سے پاکستان کے ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے خلاف چلائے گئے مقدمات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ جن میں عدالتی نظام کی واضح خلاف ورزی ، کارروائی میں شفافیت کا نہ ہونا، جبری طور پر اعترافِ جرم اور بقول ایمنسٹی کےغیر منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد موت کی سزائیں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ نو مئی کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران مشتعل ہجوم نے جلاؤ گھیراؤ سمیت، راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) اور لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کیے تھے۔ کئی شہروں میں فوج کی یادگاروں کو تباہ کیا گیا جس پر فوج نے سخت مؤقف اپنایا ہے۔

فوج نے اعلان کیا کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں آرمی کے اعلیٰ ترین حکام نے فوجی تنصیبات و آلات پر حملوں میں ملوث افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سمیت تمام متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

تحرِیک انصاف نے پر تشدد واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں کو نقضِ امن اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

فوج کی خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد تحریکِ انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ شواہدسے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ اور بعض مقامات پر فائرنگ میں خفیہ اداروں کے اہلکار ملوث تھے۔

تاہم حکومت اور عسکری اداروں پر مشتمل فورم، قومی سلامتی کمیٹی نےمنگل کو فیصلہ کیا کہ شرپسندوں، ان کے منصوبہ سازوں، اشتعال انگیزی کرنے والوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کو جاری بیان میں فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کے اعلان پر مزید کہا ہے کہ یہ دہشت زدہ کرنے کا ایک طریقہ ہے اور اس کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ اختلاف کرنے والوں میں ایک ایسے ادارے کیلئے خوف پیدا کیا جائے جس ادارے کا آئینی حدود سے تجاوز کرنے پر کبھی بھی احتساب نہیں کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے قانون کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ آئینِ پاکستان میں کئی ایسی فوجداری دفعات موجود ہیں جن کے تحت توڑ پھوڑ کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

بیان کے مطابق پاکستان کے آئین میں شہریوں کو منصفانہ عدالتی کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کے اعلان پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کامزید کہنا ہے کہ اس اقدام کی کوئی بھی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کاروائی کو فوری طور پر روکا جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی ہنگامی آرائی میں آٹھ شہری ہلاک ہوئےہیں جب کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم نے واضح کیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں