ایران: مظاہروں میں شریک ہونیوالے 3 افراد کو پھانسی دے دی گئی

تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) مہسا امینی کی موت پر ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے کی وجہ سے تینوں افراد کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس نوجوان خاتون امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

ایران میں عدالت کا کہنا ہے کہ 19 مئی جمعے کے روز ان تین افراد کو پھانسی دے دی گئی، جن پر گزشتہ برس نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کے ارکان کی ہلاکت کا الزام تھا۔

عدلیہ کی ویب سائٹ میزان آن لائن نے بتایا کہ ماجد کاظمی، صالح میر ہاشمی اور سعید یعقوبی کو مرکزی شہر اصفہان میں ایک مظاہرے کے دوران بندوق تاننے کے لیے ”محربیہ” یا ”خدا کے خلاف جنگ” کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان افراد نے بسیج پیرا ملٹری فورسز کے دو ارکان کو ہلاک کیا تھا، جبکہ نومبر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی بھی موت ہو گئی تھی۔

ان تینوں کو مظاہروں کے فوراً بعد ہی گرفتار کیا گیا تھا اور جنوری میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

میزان آن لائن کا کہنا ہے کہ ان افراد پر، ”قومی سلامتی میں خلل ڈالنے اور اندرونی سلامتی کے خلاف جرائم کرنے کے ارادے سے غیر قانونی گروپوں کی رکنیت” حاصل کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔

میزان نے اس حوالے سے مزید کہا، ”مقدمے سے متعلق ثبوت اور دستاویزات اور ملزمان کے اقبالیہ بیانات” ظاہر کرتے ہیں کہ ”ان تینوں لوگوں کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے تین افراد کی شہادت ہوئی۔”

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان تینوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قومی ٹیلیویژن پر انہیں جرم کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ انصاف پر مبنی نہیں تھا اور انہیں دفاع کا مناسب موقع بھی نہیں فراہم کیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے جمعرات کے روز ہی ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سزائے موت پر عمل درآمد نہ کرے۔ تینوں افراد نے بدھ کے روز ہی ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک نوٹ میں عوام سے حمایت کی اپیل کی تھی کہ جس پر لکھا تھا، ”انہیں ہمیں مارنے کی اجازت نہ دیں۔”

گزشتہ موسم خزاں میں ایرانی کرد خاتون جینا مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد کئی بار بڑے مظاہرے ہوئے، جنہیں ایران کی اخلاقیات پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

گزشتہ برس ستمبر میں اخلاقیات سے متعلق ایرانی پولیس کی حراست میں کرد خاتون مہسا امینی کی مشتبہ حالات میں موت ہو گئی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی جبکہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسے شدید مارا پیٹا گیا اور پولیس کی بربریت کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی تھی۔

اس واقعے کے فوری بعد ملکی سطح پر مظاہرے شروع ہو گئے، جس کے دوران ہزاروں ایرانیوں کو گرفتار کیا گیا اور درجنوں سیکورٹی فورسز سمیت سینکڑوں مظاہرین ہلاک بھی ہوئے۔ تہران ان مظاہروں کو غیر ملکیوں کی جانب سے اکسائے گئے ”فسادات” کا نام دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں