سرینگر میں جی 20 کا اجلاس، غیرمعمولی سیکیورٹی انتظامات

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر میں اگلے ہفتے ہونے والے 20 عالمی معیشتوں کے اتحاد جی 20 کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کے لیے غیرمعمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

یہ اجلاس 22 سے 24 مئی تک سرینگر کی شہرہ آفاق جھیل ڈل کے مشرقی کنارے پر واقع شیرِ کشمیر کنوینشن سینٹر میں منعقد ہوگا۔ اس سینٹر کو سیکیورٹی حکام نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے۔

اس جھیل کے تقریباً 27 مربع کلومیٹر کے علاقے اور ان ہوٹلوں اور مہمان خانوں میں جہاں مندوبین ٹھہریں گے سیکیورٹی کے خاص انتظامات کیے گئے ہیں۔ فورسز کے خصوصی دستے جس میں کمانڈوز اور شوٹرز شامل ہیں وہ بھی ان مقامات پر موجود ہیں۔

ڈل جھیل کی نگرانی کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ نیوی کے خصوصی کمانڈوز ‘مارکوس’ اور نیشنل سیکیورٹی گارڈز بھی تعینات ہیں۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے کیمرہ لگے ڈرونز، اینٹی ڈرون آلات اور نگرانی رکھنے والے دیگر جدید ساز و سامان کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور پاکستان کے ساتھ ملنے والی 198 کلومیٹر طویل جموں-سیالکوٹ سرحد پر نگرانی بڑھادی گئی ہے۔ ہمسایہ ریاستوں بھارتی پنجاب اور ہماچل پردیش سے آنے والی گاڑیوں اور ان کی مکمل چھان بین کے بعد ہی جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت اس سرحد کو انٹرنیشنل بارڈر اور پاکستان ورکنگ باؤنڈری کہتا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سری نگر کے بلیورڈ اور آس پاس کے علاقوں کو پیر کو سیل کردیا جائے گاا اور چند راستوں سے ٹریفک کا رخ موڑ دیا جائے گا۔

رپورٹس کے مطابق شہر کے تعلیمی اداروں کو حفاظتی اقدامات کے پیشِ نظر بند کیا جا رہا ہے۔اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا درست نہیں کیوں کہ تعلیم کو اہمیت ہونی چاہیے۔

حزبِ اختلاف نے حکومت پر جی 20 اجلاس سے پہلے کشمیر میں نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ اور شہریوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

سابق وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ “جب سے جی 20 کا سلسلہ شروع ہوا ہے، پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوگئی ہے۔ نوجوانوں کو پولیس تھانوں پر طلب کرنا شروع کیا گیا ہے۔”

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنوبی کشمیر میں سینکڑوں لڑکوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا ہے۔ پلوامہ، شوپیاں، اننت ناگ سے کئی لڑکوں کو پکڑا گیا ہے اور اب یہ سرینگر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت سے کہا تھا کہ “بے شک جی 20 اجلاس کریں لیکن یہاں کے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کیوں شروع کردی گئی ہے؟

ادھر جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ہے کہ اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو کچھ لوگ ہیں جنہیں بخار چڑھ جاتا ہے۔ان لوگوں نے خود کو کچھ کیا نہیں ہے اور اب اگر کچھ ہو رہا ہے تو ان کو تکلیف ہو رہی ہے۔

ان کے بقول جموں و کشمیر کی انتظامیہ ایک کروڑ 30 لاکھ لوگوں کی خوشی کے لیے پرعزم ہے۔

منوج سنہا کا کہنا تھا کہ جی 20 کانفرنس سے علاقے میں نہ صرف سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ کشمیر کی دستکاریوں اور ہاتھ سے بنی ہوئیں مصنوعات کی جی 20 ممالک میں برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

حکام کا کہنا ہے کہ جی 20 تقریبات کے دوران گلمرگ کےمقام پر تھری ٹیئر سیکیورٹی نافذ رہے گی جس کے لیے انہیں چند انتہائی حساس علاقوں میں بھارتی فوج کی مدد بھی حاصل رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب مندوبین اور مہمانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ علیحدگی پسند یا ان کے حامی مبینہ شرپسند عناصر جی 20 ایونٹ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرسکتے ہیں یا اس دوران پرتشدد کارروائیاں کرسکتے ہیں۔

ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان اقدامات سے چند مخصوص علاقوں میں شہریوں کو ‘معمولی مسائل’ اور ‘پریشانی’ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن انہیں یہ برداشت کرنا ہوگا کیوں کہ جی 20 تقریبات ان کے مفاد میں ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان نے سرینگر اور بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے دو اور شہروں جموں اور لیہہ میں جی 20 تقریبات کے انعقاد پر اعتراض کیا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر چوں کہ ایک متنازع علاقہ ہے اس لیےنئی دہلی یہاں اس طرح کے اجلاس اور تقریبات کا اہتمام کرکے اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادو ں، عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی کررہا ہے۔

بھارت نے پاکستان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا تھا کہ جی 20 کے اجلاس پورے ملک میں ہورہے ہیں اس لیےجموں و کشمیر اور لداخ میں ان کا انعقاد کوئی انہونی بات نہیں کیوں کہ اس کے بقول یہ پورا خطہ بھارت کا ایک اٹوٹ اور ناقابلِ تنسیخ حصہ ہے۔

اقوامِ متحدہ کی اقلیتوں سے متعلق اسپیشل رپورٹر فرنندی ورینیس نے گزشتہ دنوں اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا تھا جموں و کشمیر میں جی 20 اجلاس ایسے وقت کرنے سے جب وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں بھارت کی طرف سے کشمیری مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے جمہوری اور دیگر حقوق سے ظالمانہ اور جابرانہ انکار کو معمول بنانا ہے۔

بھارت نے ورینیس کے اس بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے ان پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے ، ان تقریبات کو سیاسی رنگ دینے اور اپنے منصب کا ناجائز استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جی 20 کے دو اہم رکن ممالک چین اور ترکیہ سرینگر میں ہونے والے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ بھارتی حکام نے تاحال اس کی تردید یا تصدیق نہیں کی ہے۔ البتہ حکام کا کہنا ہے کہ چند ایک ملکوں نے تاحال اجلاس میں اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔

بھارت نے یکم دسمبر 2022 کو جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی اور یہ رواں برس پہلی بار جی 20 کے سربراہی اجلاس کی میزبانی انجام دے رہا ہے۔ بھارت 30 نومبر 2023 تک اس منصب پر فائز رہے گا۔

اقتصادی لحاظ سے دنیا کے 19اہم ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل جی 20 گروپ جی ڈی پی کے 80 فیصد، عالمی تجارت کے 75 فیصد اور عالمی آبادی کے 60 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔

جی ٹونٹی کے رکن ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، جرمنی، فرانس، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکیہ، برطانیہ اور امریکہ ہیں۔ اس کے علاوہ یورپیین یونین بھی اس میں شامل ہے۔

سری نگر میں منعقد ہونے والےجی-20 ٹورزم ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیےکئی بین الاقوامی اداروں کو بھی دعوت دی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں