عرب لیگ کا اہم اجلاس، صدر زیلنسکی اور بشار الاسد بھی شریک

جدہ (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) اس اجلاس میں شامی صدر بشار الاسد کی بارہ سال بعد شرکت سب سے اہم نکتہ رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ یوکرینی صدر زیلنسکی نے عرب ملکوں سے اپنے امن فارمولے کی حمایت کا مطالبہ بھی کیا۔

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین میں روسی جنگ کے خاتمے کے لیے ان کے امن فارمولے کی حمایت کریں۔ زیلنسکی نے یہ مطالبہ جدہ میں ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے شرکاء سے خطاب کے دوران کیا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے زیلنسکی فرانسیسی حکومت کے فراہم کردہ ایک خصوصی جہاز میں کییف سے جدہ پہنچے تھے۔ اس اجلاس کے میزبان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ریاض روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے۔ خیال رہے کہ خلیجی ریاستیں یوکرین تنازعے میں اب تک غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتی آئی ہیں۔

سعودی عرب کے بندر گاہی شہر جدہ میں منعقدہ اس اجلاس کی اہم بات شامی صدر بشارالاسد کی 12 برس کے بعد اس میں شرکت ہے۔ 2011ء میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے خلاف صدر بشارالاسد کی سخت کارروائیوں کے بعد عرب لیگ نےشام کی رکنیت منجمد کر دی تھی۔

آج ہونے والے اجلاس میں دیگر علاقائی اور بین الاقوامی معاملات کے علاوہ سوڈان کی صورتحال توجہ مرکوز رہی۔ یہ سربراہی اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب دو علاقائی حریف سمجھے جانے والے ممالک سعودی عرب اور ایران نے کئی برسوں کے بعد سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں اور تعاون بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔

یوکرین جنگ اور عرب ممالک

عرب ریاستیں یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں بڑی حد تک غیر جانبدار رہی ہیں۔ ان میں بہت سے ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب نے اس سال کے شروع میں یوکرین کو 400 ملین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا اور اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس میں روس سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنا حملہ ختم کرے اور یوکرینی علاقوں کے الحاق سے باز رہے۔

سعودی عرب نے گزشتہ سال قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد یوکرین اور روس کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی۔ یوکرینی صدر زیلنسکی نے جمعہ کوسعودی عرب کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد ’’دو طرفہ تعلقات اور عرب دنیا کے ساتھ یوکرین کے تعلقات کو بڑھانا ہے۔‘‘ انہوں نے جن دیگر موضوعات کا ذکر کیا ان میں روس کی طرف سے کریمیا کا الحاق، ایک امن فارمولہ، اور توانائی تعاون شامل تھے۔

بشار الاسد کی واپسی

حالیہ برسوں میں بشار الاسد کی افواج نے روس اور ایران کی مدد سے شام کے زیادہ تر علاقے کو باغیوں سے واپس لے لیا ہے۔ سعودی عرب جنگ کے عروج کے وقت حزب اختلاف کا سب سے بڑاحامی تھا لیکن ان باغیوں کو شمال مغربی شام کے ایک چھوٹے سے علاقے میں محدود کر دیے جانے کے بعد سے ریاض حکومت ان کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے ایک اہم تجزیہ کارتوربیورن سولٹویٹ کے مطابق، ”سعودی عرب کی جانب سے شام کو واپس لانے کے لیے دباؤ علاقائی سیاست میں مملکت کے نقطہ نظر میں ایک وسیع تر تبدیلی کا حصہ ہے۔‘‘

امریکی مخالفت

امریکی قانون ساز اسد کو عالمی برادری میں واپس لانے کی عرب کوششوں کو روکنے کے لیےکوشاں ہیں۔ امریکی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین اور ریپبلکن مائیکل میک کاؤل نے اعلان کیا کہ امریکہ کو اسد کے ساتھ ”تعلقات معمول پر لانے کو روکنے کے لیے اپنا تمام اثر ورسوخ استعمال کرنا چاہیے۔‘‘

میک کاول کی کمیٹی میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز نے اس ہفتے ایک مسودہ قانون کو آگے بڑھایا ہے جو کسی بھی امریکی وفاقی ایجنسی کو اس وقت تک شامی حکومت کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے سے منع کرتا ہے جب تک کہ اس ملک کی قیادت اسد کے ہاتھ میں رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں