سری نگر میں جی ٹوئنٹی اجلاس: بھارتی سیکورٹی فورسز کے انتہائی سخت انتظامات

سری نگر (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) بھارتی حکام کو خدشہ ہےکہ عسکریت پسند خطے میں فوج کے زیر انتظام ایک اسکول کو نشانہ بنا کر طلبا کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ شہر میں فوجی کمانڈوز کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی فورس کے ارکان بھی مختلف مقامات پر تعینات ہوں گے۔

بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں جی ٹوئنٹی ممالک کے ایک اجلاس کے انعقاد سے قبل سکیورٹی سخت تر کر دی ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ہمالیہ کے اس علاقے میں سیاحت سے متعلق جی ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس کے موقع پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے کی وجہ سے جموں اور کشمیر کے خطے میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے. جموں کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے کا گرمائی دارالحکومت سری نگر بائیس سے چوبیس مئی تک جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے ایک اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے، جو ستمبر میں نئی ​​دہلی میں ہونے والے بیس کے گروپ کے سربراہی اجلاس سے قبل ہونے والے کئی اجلاسوں کے سلسلے ہی کا ایک حصہ ہے۔

کشمیری عسکریت پسند اس سال وادی کشمیر میں واقع سری نگر کے پہاڑوں کے پار جموں کے علاقے میں بھی حملوں میں اضافہ کر چکے ہیں۔ اس سال اب تک جموں میں ہونے والے چار حملوں میں دس بھارتی فوجی اور سات عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ بھارتی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ وہ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کے حوالے سے ان خدشات کا شکار ہیں کہ وہ جی ٹوئنٹی اجلاس سے پہلے یا اس کے دوران حملے کر کے اپنے مقاصد کو فروغ دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

اس خطے میں بھارتی فوج کے ایک سینئیر افسر نے کہا، ”ان ممکنہ حملوں کا وقت تشویشناک ہے کیونکہ ان کی منصوبہ بندی جی ٹوئنٹی اجلاس سے پہلے کی گئی تھی۔‘‘ فوجی اور پولیس افسران کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی خفیہ معلومات بھی ہیں کہ عسکریت پسند جموں میں بھارتی فوج کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول پر حملہ کر کے وہاں موجود طلبا کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسں خطرے کے جواب میں اس طرح کے اسکول بند کر دیے گئے تھے اور جی ٹوئنٹی اجلاس کے بعد تک کلاسز آن لائن ہی منعقد کی جائیں گی۔ بھارتی سکیورٹی ایجنسیاں سری نگر میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتیں۔ وادی کشمیر کے پولیس چیف وجے کمار نے روئٹرز کو بتایا کہ شہر میں کمانڈوز کو تعینات کر دیا گیا ہے اور انسداد دہشت گردی فورس کے ارکان بھی مختلف جگہوں پر تعینات ہوں گے۔

سری نگر 1989ء سے بھارتی حکومت کے خلاف عسکریت پسندوں کی شورش کا مرکز رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں وہاں تشدد میں کمی آنے کے باوجود اس متنازعہ علاقے میں دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔

بھارت اپنے حریف پڑوسی ملک پاکستان پر کشمیری عسکریت پسندوں کی حمایت کا الزام لگاتا ہے تاہم پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے اور بھارت پر کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی لگاتا ہے۔ جواباﹰ بھارت کی طرف سے اپنے خلاف ان الزامات کی بھی تردید کی جاتی ہے۔

ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح دونوں پڑوسی ممالک پاکستان اور بھار ت آپس میں اب تک تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں، جن میں سے دو کی وجہ جموں کشمیر کا علاقائی تنازعہ ہی بنا تھا۔ دونوں ملک اس منقسم خطے کی مکمل ملکیت کے دعوے کرتے ہیں اور اس کے الگ الگ حصوں پر حکمران ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں