ایران نے سعودی عرب میں اپنا سفیر مقرر کردیا

تہران (ڈیلی اردو/فارس/ارنا) ایران نے سفارت کاری اور خلیجی امور کا وسیع تجربہ رکھنے والے علی رضا عنایتی کو سعودی عرب میں اپنا نیا سفیر مقرر کیا ہے۔ اپریل میں چین کی ثالثی میں دونوں حریف ملکوں کے درمیان برسوں پرانے سفارتی اختلافات دور ہو گئے تھے۔

ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس کے مطابق علی رضا عنایتی ریاض میں تہران کے نئے سفیر ہوں گے۔ اس ماہ کے اوائل میں سعودی عرب نے ایران کے لیے اپنے نئے سفیر کا اعلان کیا تھا۔

علی رضا عنایتی اس سے قبل سن 2014سے 2019 کے درمیان کویت میں تہران کے سفیر رہ چکے ہیں۔

فارس کے مطابق کویت میں اپنی نئی تعیناتی سے قبل وہ ایران کی وزرات خارجہ میں خلیجی امور کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ سن 2019 میں انہیں دوبارہ اس عہدے پر فائز کیا گیا تھا اور وہ اس وقت سے اسی عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایران کے وزیر خارجہ کے معاون کے طورپر بھی خدمات انجام دی ہیں۔

ایران اور سعودی عرب نے مارچ میں چین کی ثالثی میں سات سال بعد دو طرفہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ بھی ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں اور اہم شہروں میں اپنے اپنے سفارت خانے اور قونصل خانے دوبارہ کھولنے نیز 20 سال قبل ہونے والے سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر عمل درآمد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

خیال رہے کہ سن 2016 میں ایک معروف شیعہ عالم دین کو سعودی عرب میں پھانسی دیے جانے کے خلاف ایران میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے پر حملے کر دیے تھے۔ ان واقعات کے بعد ریاض نے تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔

ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ارنا کے مطابق اس ماہ کے اوائل میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بتایا تھا کہ سعودی عرب نے تہران میں اپنے نئے سفیر کا تقرر کر دیا ہے اور ایران بھی جلد ہی ریاض میں اپنا نیا سفیر مقرر کرے گا۔

شام خانی نے استعفی کیوں دیا؟

ایران میں ایک اور اہم پیش رفت میں بریگیڈیئر جنرل علی اکبر احمدیان کو ایڈمرل علی شام خانی کی جگہ ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کا سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔

شام خانی نے پیر کے روز اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ انہیں ستمبر 2013 میں نیشنل سکیورٹی کونسل کا سکریٹری مقرر کیا گیا تھا اور وہ 1979کے اسلامی انقلاب کے بعد سکیورٹی چیف کے طورپر سب سے زیادہ مدت تک کام کرنے والے دوسرے شخص تھے۔

شام خانی نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایران کی سکیورٹی پالیسی سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ایرانی صدر رئیسی نے اپنے فرمان میں شمخانی کی خدمات پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

شام خانی کے اپنے عہدے سے استعفی دینے کی سرکاری طورپر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ان کے عہدے سے دستبردار ہوجانے کی افواہیں گشت کررہی تھیں، حالانکہ سرکاری میڈیا میں اس کی تردید بھی کی گئی تھی۔

جنوری میں ان کے مستعفی ہونے کی خبریں اس وقت تیز ہو گئی تھیں جب ان کے ایک سابق قریبی ساتھی علی رضا اکبری کو برطانیہ کے لیے جاسوسی کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

اپنا استعفی دینے سے قبل شام خانی نے اتوار کو دیر شام ٹویٹر پر ایک پوسٹ کیا جس میں سولہویں صدی کے ایرانی شاعر محتشم کاشانی کی ایک مبہم نظم کے چند اشعار درج ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں