سوئٹزلینڈ: معروف اسلامی اسکالر طارق رمضان ریپ کے الزامات سے بری

جنیوا (ڈیلی اردو/بی بی سی) سوئٹزلینڈ کی ایک عدالت نے معروف اسلامی اسکالر طارق رمضان کو ریپ اور جنسی جبر کے الزامات سے بری کر دیا ہے۔

طارق رمضان، جو سوئس شہری ہیں، مصر کی اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کے پوتے ہیں۔ ان کے خلاف رحھ کا الزام ایک سوئس خاتون نے لگایا تھا۔ خاتون کا الزام تھا کہ 2008 میں جنیوا کے ایک ہوٹل میں طارق رمضان نے ان کے ساتھ زیادتی کی تھی۔

خاتون جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، اور طارق رمضان کی مداح تھیں ، نے عدالت کو بتایا کہ انہیں مار پیٹ ، توہین اور وحشیانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس وقت ہوا جب انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر تعلیم طارق رمضان نے ایک کانفرنس کے بعد کافی کے لیے مدعو کیا تھا۔

طاق رمضان کو جرم ثابت ہونے پر تین سال تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ انہوں نے تمام الزامات سے انکار کیا، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ خاتون سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔

یہ مقدمہ کسی زمانے میں اسلامی فکر کے ’راک اسٹار‘ کے طور پر مشہور طارق رمضان کے اب تک کے کیریئر کے بالکل برعکس تھا۔

جب یورپ دہشت گردانہ حملوں اور بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات سے نبرد آزما تھا، وہاں طارق رمضان ایک معقول اور سمجھدار شخصیت کے طور پر سامنے آئے تھے۔ جو دہشت گردی کی مذمت کرتے تھے، سزائے موت کی مخالفت کرتے تھے، اور یہاں تک کہ تیونس، مصر، سعودی عرب، لیبیا اور شام میں ان کا داخلہ ممنوع ہو چکا تھا کیونکہ انہوں نے ان ممالک میں جمہوریت نہ ہونے پر تنقید کی تھی۔

2004 میں انہیں ٹائم میگزین کے دنیا کے 100 سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں سے ایک منتخب کیا گیا۔ 2007 میں وہ سینٹ انتھونی کالج آکسفورڈ میں اسلامیات کے پروفیسر بن گئے۔ ان کے ناقدین بھی بہت تھے، خاص طور پر فرانس میں، جہاں کئی سرکردہ ماہرین تعلیم نے ان پر یہود دشمنی کا الزام لگایا۔

لیکن 2017 میں، مسٹر رمضان کا عروج اس وقت ختم ہوا، جب ان پر ایک فرانسیسی خاتون نے ریپ کا الزام لگایا۔

جب وہ کیس منظر عام پر آیا تو مزید خواتین سامنے آئیں۔

2020 تک وہ ریپ کے پانچ الزامات کا سامنا کر رہے تھے۔ چار فرانس میں، اور ایک سوئٹزرلینڈ میں۔

اچھے رویے کی ضمانت پر رہا ہونے سے پہلے وہ فرانس میں نو ماہ حراست میں گزار چکے تھے۔ وہ مسلسل اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

سب سے پہلے سوئس کیس کی سماعت شروع ہوئی اور جنیوا کی کمرہ عدالت میں ماحول کشیدہ تھا۔ طارق رمضان جب وہاں پہنچے تو انہیں بے شمار کیمروں کا سامنا کرنا پڑا۔

ان پر الزام لگانے والی خاتون بریجیٹ (خاتون کا تبدیل شدہ نام ) جنکی شناحت ظاہر نہیں کی جا سکتی انہوں نے کمرہ عدالت میں ایک سکرین لگانے کی درخواست کی تاکہ انہیں اس شخص کا سامنا نہ کرنا پڑے جس پر انہوں نے جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا۔

خاتون نے مبینہ حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں خوف تھا کہ وہ کہیں مر نہ جائیں۔

طاق رمضان نے انہیں اپنے ہوٹل کے کمرے میں مدعو کرنے کا اعتراف کیا، لیکن کسی بھی قسم کے تشدد سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف تمام الزامات کی وجہ سیاسی ہے اور یہ تمام الزامات انہیں بدنام کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں۔

طارق رمضان کے وکلاء نے مبینہ حملوں کی تاریخوں میں تضادات کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگانے والوں کی سچائی پر سوال اٹھایا۔

طارق رمضان کے خاندان نے ان کی حمایت کی۔ طارق رمضان کے بیٹے سمیع نے 2019 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے والد کے خلاف الزامات ’دوسری وجوہات کے سبب عائد کیے گئے ہیں، جو ہمارے خیال میں سیاسی ہیں‘۔

اس بات کی حمایت درجنوں اعلیٰ شخصیات نے کی، جن میں امریکی فلسفی نوم چومسکی، اور برطانوی فلم ساز کین لوچ شامل ہیں، جنہوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں سوال کیا گیا کہ کیا مسٹر رمضان کو ایک منصفانہ قانونی ٹرائیل حاصل ہو رہا ہے۔

جنیوا کی عدالت میں استغاثہ نے اصرار کیا کہ بریجیٹ (خاتون کا تبدیل شدہ نام )نے مبینہ حملے کی بات کو گھڑا نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو وہ ججوں کو اتنی تفصیل سے بتانے کے قابل نہیں ہوتیں۔

طارق رمضان کے دفاعی وکیل نے ان کے خلاف الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کی بے گناہی پر زور دیا۔

ایک ہفتے کی بحث کے بعد تین سوئس ججوں نے انہیں بے قصور قرار دیا۔ انہیں سوئٹزرلینڈ میں کلیئر کر دیا گیا ہے، تاہم یہ کئی مقدمات میں سے صرف پہلا کیس ہو سکتا ہے۔

فرانس میں، استغاثہ ابھی تک اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا طارق رمضان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو عدالت میں جانا چاہیے۔ وہ تمام معاملات میں اپنی بے گناہی پر قائم ہیں اور انہوں نے عزم کیا ہے کہ وہ تمام الزامات سے اپنا نام صاف کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں