چین: مسجد کے انہدام کے خلاف شدید مزاحمت، پولیس اور فوج تعینات، متعدد مسلمان گرفتار

بیجنگ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے) چین میں ایک مسجد کو جزوی طور پر مسمار کرنے کی منصوبہ بندی پر جھڑپوں کے بعد مسلمانوں کی اکثریت والے جنوب مغربی قصبے میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا جبکہ متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف کو عینی شاہدین سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چینی حکام نے ایک مسجد کو جزوی طور پر مسمار کرنے کی متنازعہ منصوبہ بندی پر عمل درآمد کی کوشش کی مزاحمت کے نتیجے میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد مسلمانوں کی اکثریت والے جنوب مغربی قصبے میں بھاری تعداد میں پولیس کو تعینات کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سے افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقامی ذرائع سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ اس علاقے میں چینی فوجی دستوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔

ایک مقامی رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پیر کو بتایا کہ صوبہ یونان کے شہر ناگو میں حال ہی میں چار میناروں اور ناجیائینگ مسجد کے گنبد کی چھت کو گرانے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

یہ علاقہ چین کے ایک مسلم نسلی گروپ ” ھوئی‘‘ کا ایک بڑا گڑھ مانا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ مسلم نسلی گروہ وسیع کریک ڈاؤن کی وجہ سے دباؤ میں آ گیا ہے۔

چینی صوبے یونان کے شہر ناگو کی انتظامیہ نے حال ہی میں چار میناروں اور ناجیائینگ مسجد کے گنبد کی چھت کو گرانے کے منصوبے کو آگے بڑھایا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق 2020ء میں بیجنگ حکومت کی طرف چند مقامات کو مسمار کرنے کی فہرست میں ناجیائینگ مسجد کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ حکام نے اس علاقے کی مسلم آبادی پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ مسجد ایک ایسی اراضی پر تعمیر کی گئی ہے جس پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے کے روز، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں درجنوں سکیورٹی اہلکاروں اور مسلمانوں کے ایک ہجوم کے ساتھ مسجد کے باہر تصادم اور ایک دوسرے پر مختلف اشیاء پھینکنے اور حملہ کرنے کے مناظر دیکھے گئے۔

ایک مقامی رہائشی خاتون نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ”وہ زبردستی مسماری کے منصوبے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، اس لیے یہاں کے مقامی لوگ انہیں روکنے کے لیے گئے تھے۔‘‘ اس خاتون کا مزید کہنا تھا، ”مسجد ہم جیسے مسلمانوں کا گھر ہے۔ اگر وہ اسے گرانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یقینی طور پر انہیں اندر نہیں جانے دیں گے۔ عمارتیں صرف عمارتیں ہوتی ہیں، ان سے لوگوں یا معاشرے کو کوئی نقصان، نہیں پہنچتا۔ انہیں تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

دو گواہوں نے بتایا کہ پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے متعدد گرفتاریاں کی ہیں اور پیر تک کئی سو سکیورٹی اہلکار شہر میں موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جھڑپوں کے بعد سے مسجد کے آس پاس کے علاقوں میں لوگوں کو وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش اور کنیکٹیویٹی کے دیگر مسائل کا سامنا تھا۔

ٹونگھائی حکومت کی جو ناگو کی انتظامیہ بھی ہے، کی طرف سے اتوار کو جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا، ”سماجی نظم و نسق کو بری طرح متاثرکرنے کے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔‘‘

اس واقعے میں ملوث افراد کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ”تمام غیر قانونی اور مجرمانہ کارروائیوں کو فوری طور پر بند کریں۔‘‘ حکام کی طرف سے جاری کردہ نوٹس میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ جو بھی اپنے آپ اپنے رویے کو تبدیل کرنے سے انکار کرے گا اسے ”سخت سزا‘‘ دی جائے گی۔

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ 6 جون سے پہلے رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے گا۔

منگل کو اے ایف پی کے ذریعے رابطہ کیے جانے کے بعد ، ٹونگھائی کے پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے انٹرنیٹ کی بندش کی تردید کی، لیکن مزید تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

چینی صوبے یونان میں قائم ناجیائینگ مسجد منگ خاندان نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کروائی تھی۔ یہ ایک انتہائی تاریخی مسجد مانی جاتی ہے۔ تاہم چین میں حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ چین میںایغور مسلم اقلیتی برادری کی ”نسل کشی‘‘ پر عالم اسلام سمیت دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ مسجد کے انہدام کے منصوبے کو بھی چین میں بڑھتے ہوئے،”اسلامو فوبیا‘‘ جذبات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں