خیبرپختونخوا: دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی، 20 دنوں میں 19 ہلاکتیں

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے قبائلی اضلاع اور افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور سرکاری املاک پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں ایک بار پھر تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

گزشتہ 20 روز کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں مجموعی طور پر 19 افراد ہلاک اور سات زخمی ہو چکے ہیں۔دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ٹانک میں پیر کی صبح پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے گاؤں کوٹ کٹ میں ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس کو آگ لگا دی۔

ضلعی پولیس نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین سرکاری عمارتوں کو آگ لگانے اور تباہ کرنے کے بعد مبینہ ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اتوار کو افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے ‘آئی ایس پی آر’ کے بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک ہو گئے جب کہ اس جھڑپ میں دو سیکیورٹی اہل کار بھی جان کی بازی ہار گئے۔

سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کی جھڑپیں

پاکستانی حکام کے مطابق شمالی وزیرستان کے تحصیل میرعلی کے تین مختلف مقامات پر سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاک پانچ زخمی ہوگئے۔ حکام نے چار عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کا دعوٰی بھی کیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ جھڑپیں میرعلی تحصیل اور ملحقہ نیم قبائلی علاقے جانی خیل میں ہوئیں۔

سرکاری ذرائع نے ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بنوں اور شمالی وزیرستان کو ملانے والی نیم قبائلی علاقے جانی خیل میں جمعے اور ہفتے کے درمیانی شب عسکریت پسندوں نے مالی خیل کے چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ایک نائب صوبیدار کو ہلاک اور تین اہل کاروں کو زخمی کر دیا تھا۔

سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان دوسری جھڑپ تحصیل میرعلی کے گاؤں بچی کسکی میں ہوئی جہاں ایک کارروائی میں چار مبینہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتار کیے گئے افراد میں تین بھائی بھی شامل ہیں۔

عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تیسری جھڑپ ہفتے کی دوپہر کو میر علی ہی میں ہوئی جس کے دوران دو اہل کار زخمی ہوئے۔ بیان کےمطابق زخمیوں کو میر علی اور میران شاہ کے اسپتال منتقل کیا گیا۔ ان واقعات کے بعد علاقے میں سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 31 مئی کو مبینہ دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے علاقے سپین وام میں انسداد پولیو ٹیم کے ارکان پر فائرنگ کر کےایک پولیس اہل کار کو ہلاک اور ایک کو زخمی کر دیا۔ انسداد پولیو ٹیم پر حملے میں ملوث مبینہ عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے ایک اور شمالی قبائلی علاقے باجوڑ میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے ایک گاڑی کو نشانہ بنا کر ایک شخص کو ہلاک اور ایک کو زخمی کر دیا۔ ہلاک ہونے والا شخص گاڑی کا ڈرائیور بتایا جاتا ہے۔

خود کُش حملہ اور ٹارگٹ کلنگ

رواں برس مئی کے تیسرے ہفتے کے اوائل میں شمالی وزیرستان کے تحصیل میرعلی میں عیدک کے مقام پر سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں حکام کے بقول 3 سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 6 زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں مین تین سویلین بھی شامل تھے۔

اسی دوران پشاور میں گھات لگا کر قتل کی دو وارداتوں میں ایک مذہبی جماعت سے منسلک عالم سمیت دو افراد ہلاک ہوئے۔ تین مئی ہفتے کے روز پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ایک مذہبی سیاسی جماعت سے منسلک ایک عالم مفتی احسان اللہ کو قتل کر دیا۔

حالیہ کارروائیوں کی ذمے داری کس نے قبول کی؟

دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کی ذمے داری کالعدم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔ ایک روز قبل اسی تنظیم نے شمالی وزیرستان کی دور افتادہ تحصیل دتہ خیل کے پہاڑی علاقے شوال میں حافظ گل بہادر کی شوری مجاہدین کے ساتھ مل کر سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

سرکاری طور پر اس واقعے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اس دور افتادہ علاقے میں ذرائع ابلاغ کو بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔

چند روز قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں حکام نے مختلف قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جینس بنیادوں پر 32 مختلف مقامات پر کارروائیوں کی تصدیق کی تھی ۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان کاروائیوں کے علاوہ مقامی لوگوں بالخصوص قبائلی رہنماؤں کو بھی امن کمیٹیوں میں شامل کرکے قیام امن کے کوششوں میں شریک کرنے کے تجاویز پر کام جاری ہے۔

تاہم خیبر پختونخوا کے سابق سیکرٹری داخلہ سید اختر علی شاہ شمالی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافے کے اسباب کے بارے میں کہتے ہیں کہ در اصل اس وقت تمام تر ریاستی اداروں کے توجہ ملک کی سیاسی اور معاشی حالات پر مرکوز ہے ۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی توجہ سیاسی و معاشی حالات پر متوجہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں نے بھی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں اہم عسکریت پسند کمانڈر ہلاک

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے تحصیل درابن کے گاؤں کوٹ عیسیٰ خان میں ہفتے کی رات سیکیورٹی فورسز نے حساس اداروں کی خفیہ اطلاع پر کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی گنڈہ پور گروپ کے اہم کمانڈر مظہر عرف جھنگی کو ایک کارروائی میں ہلاک کردیا۔ اس کارروائی میں مبینہ عسکریت پسند کمانڈر کے دو ساتھی زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی پولیس افسر کے ترجمان کےمطابق ہلاک ہونے والا عسکریت پسند پولیس اور سی ٹی ڈی ڈی آئی خان کو متعدد وارداتوں میں مطلوب تھا اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اس کے سر کی قیمت 25 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں