اسلام آباد (ڈیلی اردو مانیٹرنگ ڈیسک) صوبۂ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے کنونشن میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں 50 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا اختر حیات خان نے دھماکہ خود کش ہونے کی تصدیق کردی ہے۔انہوں نے بتایا کہ 10 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے کی جگہ سے بال بیئرنگ ملے ہیں، دھماکے میں جن زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے، انہیں آرمی کے ہیلی کاپٹر سے پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔
باجوڑ کی ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو حکام کے مطابق باجوڑ کی تحصیل خار میں ہونے والے دھماکے میں اب تک 50 افراد ہلاک اور 90 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے۔ دھماکے میں جیو نیوز کے کیمرہ مین سمیع اللّٰہ بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر باجوڑ انوار الحق کے مطابق 13شدید زخمی افراد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔ انوار الحق کے مطابق چونکہ زخمی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
دھماکے میں جے یو آئی تحصیل خار کے امیر مولانا ضیااللہ جان اور مولانا حمید اللہ حقانی بھی ہلاک ہو گئے جبکہ ریسکیو حکام کے مطابق دھماکے کے زخمیوں کو دیگر قریبی اضلاع کے ہسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
جے یو آئی ف کے صوبائی امیر سنیٹر مولانا عطاء الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باجوڑ میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے کنونشن میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ابتک 75 سے 80 زائد افراد ہلاک جبکہ 150 زخمی ہوئے ہیں۔
تیمرگرہ ہسپتال: جےیوآئی کے صوبائی امیر سنیٹر مولانا عطاء الرحمان کی میڈیا سے گفتگو#جےیوآئی_باجوڑکنونشن_لہولہو pic.twitter.com/Pzxo1wITtA
— Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan (@juipakofficial) July 30, 2023
ڈی پی او باجوٰ نذیر خان نے کہا کہ جے یو آئی ایم کے جلسے میں دھماکے سے کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ابتدائی تفتیش سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔
ڈی پی او نذیر خان نے مزید کہا کہ ’جمعیت علمائے اسلام (ف) ورکرز کنونشن میں دھماکہ ہوا جس میں تقریباً 40 افراد ہلاک جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے ہیں جنھیں باجوڑ ڈسٹرکٹ ہسپتال کے علاوہ پشاور اور قریبی ہسپتالوں کو بھی ریفر کیا گیا ہے۔
’پولیس جوان اور دیگر تنظیمیں امدادی کارروائیوں کا حصہ رہیں۔ دھماکے کی نوعیت اور اصل نقصان کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ جائے وقوعہ سے لاشیں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ جہاں پر علاج معالجے اور دیگر ضروری اقدامات جاری ہیں۔‘
اس کا کہنا ہے کہ ’تقریباً 15 کے قریب زخمیوں کو (ہیلی کاپٹر کے ذریعے) ایئر لفٹ کر کے پشاور لے جایا گیا ہے۔ ہسپتال میں زیادہ رش کی وجہ سے پولیس اور دیگر شعبہ جات کی ٹیموں کو شدید رکاوٹ کا سامنا رہا۔‘
ڈی پی او کے مطابق تفتیشی ٹیمیں جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہی ہیں۔ نذیر خان نے کہا ہے کہ ’ابتدائی تفتیش سے دھماکہ خودکش لگتا ہے۔‘
خیال رہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس دھماکے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
ترجمان ریسکیو 1122 کے مطابق یہ دھماکہ خار کے علاقے دوبئی موڑ کے قریب جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام شنڈئی موڑ ہیڈ کوارٹر خار میں جاری ورکرز کنونشن میں ہوا۔
حکام کے مطابق دھماکے کے بعد ضلع میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور تمام طبی عملے کو ہپستال پہنچنے کا کہا گیا ہے۔
انتظامیہ نے ضلعے کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ زیادہ تر زخمیوں کو باجوڑ شہر کے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ باجوڑ کے ہسپتال 46 افراد کی لاشیں منتقل کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 150 سے زائد افراد دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں جن کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ ان کے بقول ایسے زخمی جن کی حالت زیادہ خراب ہے انہیں فوج کے ہیلی کاپٹرز سے پشاور منتقل کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
پولیس نے تین درجن زخمی تیمرہ گرہ اسپتال منتقل کیے ہیں۔حکام نے اموات میں اضافے کا بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
دھماکے میں جے یو آئی (ف) کے کئی مقامی رہنما بھی نشانہ بنے ہیں۔
دوسری جانب ریجنل پولیس افسر (آر پی او) مالاکنڈ ناصر ستی کا کہنا تھا کہ دھماکے کی نوعیت سے یہ خود کش معلوم ہوتا ہے البتہ ابھی اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں بھی سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے نگراں وزیرِ اطلاعات فیروز شاہ جمال نے نجی نشریاتی ادارے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ جے یو آئی کے کنونشن میں دھماکہ ہوا ہے جس میں 35 سے زائد افراد ہلاک جب کہ 200 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق زخمیوں کو ہر طرح کی ممکنہ طبی امداد دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ زخمیوں کو پشاور منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹرز کا بھی بندوبست کیا جا رہا ہے۔
فیروز شاہ جمال کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے پہلے مساجد، پھر اقلیتی برادری اور اب سیاسی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کے بقول حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی استعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں کی فوج سے تربیت کرائی ہے۔ پولیس کو مزید گاڑیاں، بکتر بند اور آلات بھی فراہم کیے ہیں تاکہ فساد کو ختم کیا جا سکے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز اور دیگر نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق ریسکیو حکام نے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی سیکریٹری جنرل سینیٹر مولانا عبد الغفورحیدری نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) ایک پر امن جماعت ہے جس نے ہمیشہ پر امن سیاسی جہدوجہد کا راستہ اپنایا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی جماعت ماضی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ یہ مذہبی سیاسی جماعت افغان طالبان کی حامی سمجھی جاتی ہے۔
ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔ تاہم ماضی میں ٹی ٹی پی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں ایسے حملوں میں ملوث رہی ہیں۔
صدر عارف علوی اور وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت سیاسی رہنماؤں نے دھماکے کی مذمت کی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔
انہوں نے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور خیبر پختونخوا کی نگراں حکومت سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) وفاق میں قائم اتحادی حکومت اور سیاسی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا حصہ ہے۔
پاکستان میں دو ہفتوں میں حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے جس کے بعد نگراں حکومت ملک میں انتخابات کرائے گی۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ ہفتوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں سیکیورٹی اداروں اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
دو ہفتے قبل پشاور میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کی گاڑی کے قریب دھماکے میں آٹھ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی۔