پاکستان: باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی

پشاور + اسلام آباد (ش ح ط/ڈی پی اے/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں جے یو آئی کی کنونشن میں ہونے والے خودکش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 56 ہوگئی۔ حملے میں ہلاک ہو نے والوں کی تدفین کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب شدت پسند گروپ داعش نے باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی کنونشن کے دوران خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اسی دوران جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی ریلی میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاکتوں کی تعداد آج پیر کے روز بڑھ کر 56 تک پہنچ گئی ہے۔

خیال رہے کہ باجوڑ دھماکے کی ایف آئی آر نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف ریاست کی مدعیت میں دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کر لی گئی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق باجوڑ میں ہونے والے جماعت علمائے اسلام ف کے ورکررز کنونشن کے دوران دوپہر چار بج کر 10 منٹ پر جلسہ گاہ میں دھماکہ ہوا تھا۔

اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ بھی آج سے شروع کر دیا گیا ہے۔باجوڑ میں ہونے والے اس بم دھماکے میں زخمیوں کی تعداد 150 سے زائد ہے، جن میں سے تقریبا نوے افراد کا علاج معالجہ جاری ہے۔ پولیس نے گزشتہ رات چھاپے مارتے ہوئے کم از کم تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

افغان سرحد کے قریب سابقہ پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ میں اتوار کو ایک خودکش بمبار نے خود کو جے یو آئی کی ریلی میں ہجوم کے درمیان اڑا دیا، یہ علاقہ کبھی پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کے زیر کنٹرول ہوا کرتا تھا۔

اتوار کو کم از کم 50 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ ریسکیو اہلکار بلال فیضی نے بتایا کہ کم از کم چھ مزید زخمی ہسپتالوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، جس سے ہلاکتوں کی تعداد 46 ہو گئی۔

صوبائی پولیس چیف اختر حیات خان نے تصدیق کی کہ یہ خودکش حملہ تھا اور حملہ آور کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جا رہا ہے۔

آئی جی پولیس اختر حیات خان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ دھماکے میں 10 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے جبکہ جائے وقوعہ سے بال بیئرنگ بھی بر آمد ہوئے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس دھماکے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

باجوڑ کے مقامی پولیس کے سربراہ نذیر خان نے کہا کہ بم دھماکے سے ممکنہ تعلق میں کم از کم تین مشتبہ افراد کو راتوں رات گرفتار کیا گیا جبکہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

خان نے مزید کہا، ”ہم نے ابتدائی تحقیقات سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ حملے میں داعش کا ہاتھ ہے۔‘‘

’’اسلامک اسٹیٹ اِن خراسان‘‘ (ISIK)، جو کہ شدت پسند گروپ داعش کی مقامی شاخ ہے، 2015 سے افغانستان اور پاکستان دونوں میں سرگرم ہے اور کئی مہلک حملوں کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں انتخابات سے قبل عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافہ 2008 سے ایک رجحان رہا ہے۔

باجوڑ میں شدت پسندی میں اضافہ

باجوڑ میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور خصوصا جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔

گزشتہ دو سال میں ٹارگٹ کلگ کے کئی میں مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا جن میں زیادہ تعداد جمعیت کے رہنماؤں کی تھی۔

رواں سال اپریل کی 10 تاریخ کو باجوڑ کی تحصیل ماموند میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مولانا گل نصیب ہلاک اور ان کے ساتھی مفتی شفیع اللہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے نومبر 2022 میں ڈمہ ڈولہ کے مقام پر نامعلوم افراد نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما قاری الیاس کو قتل کر دیا تھا۔

اسی طرح اپریل 2022 میں بھی دو واقعات ہوئے جن میں سے ایک واقعے میں مفتی بشیر کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ دوسرے واقعے میں مفتی شفیع اللہ کو نشانہ بنایا گیا تھا جو جمعیت کے اہم رکن تھے اور مقامی سکول میں عربی زبان کے استاد تھے۔

انھیں سڑک کنارے ایک دیسی ساختہ بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں