گوادر حملہ: چین کا پاکستانی حکام سے چینی شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی/اے ایف پی/ڈی پی اے) بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے علیحدگی پسندوں نے گوادر میں چینی انجینئرز کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ چینی انجینئرز اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم گوادر بندرگاہ کی طرف جا رہے تھے۔

بلوچ علیحدگی پسند گروپ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”بی ایل اے مجید بریگیڈ نے آج گوادر میں چینی انجینئرز کے قافلے کو نشانہ بنایا اور حملہ اب بھی جاری ہے۔‘‘

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے حملے کی تصدیق کی ہے تاہم فوری طور پر کوئی بھی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔ دریں اثنا سینیٹر اور سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے ٹویٹر پر، جسے اب ایکس کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، کہا ہے کہ حملے میں کوئی چینی شہری ہلاک نہیں ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا، ”میں گوادر میں چینی کارکنوں کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اطلاعات ہیں کہ گھات لگا کر حملہ کیا گیا، جسے پسپا کر دیا گیا ہے اور حملہ آور مارے گئے ہیں۔‘‘

پاکستان کے سرکاری ریڈیو نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صورتحال قابو میں ہے۔ مزید بتایا گیا ہے، ”گوادر میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔‘‘

چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ چینی انجینیئروں کو لے جانے والے ایک قافلے پر فائرنگ کی گئی جس میں تاحال کسی چینی شہری کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں۔

اس کے مطابق تین بُلٹ پروف ایس یو وی گاڑیوں اور ایک بُلٹ پروف وین پر مشتمل قافلے میں 23 چینی شہری سوار تھے اور حملے کے دوران ایک آئی ای ڈی دھماکہ ہوا جبکہ وین پر گولیاں برسائی گئیں جس سے شیشوں پر کریک آئے۔

گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ کراچی میں چینی قونصل خانے نے اتوار کو اس حملے کے بعد چینی شہریوں کے لیے ایک سیفٹی وارننگ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ امن و امان کی صورتحال کے باعث وسیع پیمانے پر عوامی سرگرمیوں سے گریز کریں۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاع پر سکیورٹی فورسز نے وہاں آپریشن شروع کیا جس دوران دہشت گردوں اور سکیورٹی فورسز میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

اس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر مزید سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔

ادھر مسلح شدت پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک بیان میں آج گوادر میں ’چینی انجینیئروں کے خلاف حملے‘ کی ذمہ داری قبول کی ہے اور چار چینی شہریوں کے ساتھ ساتھ نو سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

تاہم گلوبل ٹائمز کے مطابق تاحال اس حملے میں کسی چینی شہری کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔

ِخیال رہے کہ اتوار کو عینی شاہدین کے مطابق گوادر میں ایئرپورٹ روڈ پر فقیر کالونی پُل کے قریب فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

گوادر حملہ: چین کا پاکستانی حکام سے چینی شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں حملے کے بعد چین نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تخریب کاروں کو سخت سزائیں دیں اور چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

پاکستان میں چینی سفارتخانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گوادر پورٹ پراجیکٹ کے قریب چینی قافلے پر فائرنگ کی گئی اور بموں سے حملہ کیا گیا۔ یہ قافلہ گوادر ایئرپورٹ سے ساحلی علاقے کی جانب آ رہا تھا۔

اس کا کہنا ہے کہ حملے میں کوئی چینی شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔

چین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان ’تخریب کاروں کو کڑی سزائیں دے اور چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرے۔‘

اس نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی حکام اس حملے کی مفصل تحقیقات کریں اور مستقبل میں ایسے حملے ہونے سے روکیں۔

بلوچ علیحدگی پسند اکثر اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ پاکستانی فوج کا شعبہ تعلقات عامہ بھی حملوں کی شدت کو کم بتاتا ہے یا ان کی اطلاع دینے میں تاخیر کرتا ہے۔

مختلف بلوچ عسکریت پسند گروپ ماضی میں بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے سے منسلک پروجیکٹوں پر حملوں کا دعویٰ کرتے آئے ہیں۔ دوسری جانب حکومت پاکستان نے بیجنگ کے مفادات کے خلاف خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔

اسلام آباد حکومت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ایسے مسلح گروہوں کو بیرونی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔

اپریل 2022 میں تین چینی ماہرین تعلیم اور ان کا پاکستانی ڈرائیور اس وقت ہلاک ہو گئے تھے، جب کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا تھا۔ اُس حملے کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

سن 2021 میں بھی 12 افراد، بشمول نو چینی کارکن، اس وقت ہلاک ہو گئے تھے، جب ایک بس عملے کو داسو ڈیم سائٹ پر لے جا رہی تھی۔ اسلام آباد نے کہا کہ یہ دھماکہ ”گیس لیک‘‘ کی وجہ سے ہوا لیکن بیجنگ نے اصرار کیا کہ یہ ایک بم حملہ تھا۔

بلوچستان پاکستان کا سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے لیکن معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ بلوچ عوام ایک طویل عرصے سے شکایت کرتے آ رہے ہیں کہ انہیں صوبے کے وسائل سے کمائے جانے والے منافع کا مناسب حصہ نہیں ملتا، جس وجہ سے وہاں ایک درجن سے زائد علیحدگی پسند گروپ جنم لے چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں