پاراچنار تا کوہاٹ، 70 سالوں میں بین الاقوامی سڑک تعمیر نہ ہوسکی

پارا چنار (رپورٹ: میر افضل خان طوری) کوہاٹ پاراچنار روڈ ایک بین الاقوامی سڑک ہے۔ یہ سڑک افغانستان کے تین صوبوں کو ملاتی ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بڑی بڑی وزنی گاڑیاں اس سڑک پر سے گزر کر پاراچنار شہر اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں داخل ہو جاتی ہیں۔

انگریز حکومت نے اس وقت یہ سڑک پکی تعمیر کی تھی۔ لیکن اسکے بعد پچھلے 70 سال سے زیر تعمیر رہی ہے۔چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنتے رہتے ہیں وہ بھی کچھ مہینوں بعد بڑے گڑھوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

تصویر میں زیر تعمیر حصہ پاراچنار شہر کا داخلی راستہ ہے۔ آپ اس کی حالت سے یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ آگے ٹل اور ٹل سے آگے کوہاٹ تک اس کی حالت کیا ہوگی۔

توڑ پھوڑ کیوجہ سے پورے راستے میں عوام کو گرد و غبار اذیت سامنا رہتا ہے۔ پشاور تک پہنچتے پہنچتے اکثر مریض راستے میں ہی اللہ تعالی کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ اکثر بچے ,عورتیں اور بوڑھے گرد و غبار کیوجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں۔

پاراچنار، صدہ، ٹل، ہنگو کے منتخب نمائندے بھی شاید اپنے محفوظ اے سی گاڑیوں میں اسی راستے سفر کرتے ہونگے۔ لیکن اگر ان کو عوام کا یہ اذیت ناک درد محسوس ہوتا تو وہ قومی اسمبلی کو سر پہ اٹھاتے ، سب سے پہلے اس سڑک کو موٹر وے کی حیثیت سے سی پیک میں شامل کرانے اور مکمل کرنے کا پر زور مطالبہ کرتے۔

ایم این اے سنٹرل کرم حاجی منیر خان اورگزئی اور ایم این اے کرم حاجی ساجد حسین طوری ماشااللہ سے 3 ، 3 بار مسلسل ایم این اے رہ چکے ہیں۔ لیکن سخت افسوس کی بات ہے کہ انھوں نے اس بین الاقوامی سڑک کو قبائلی موٹر وے تو بہت دور کی بات ، مکمل کرنے کیلئے بھی حکومت پر دباو نہیں ڈالا۔

ضلع کرم کے مشران سے تو کوئی گلہ ہی نہیں ہے۔ وہ تو کچھ شیعہ ہیں ،کچھ سنی اور کچھ افسران بالا کی خوشامد کرانے ہمہ وقت مصرف ہیں۔ انکو شاید ان معاملات کی کوئی خاص فکر نہیں ہے۔ وہ جب ایک دوسرے پر اعتراضات اور خوشامد سے فارغ ہونگے تو سڑک کی بات کرینگے۔
ہم وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان، وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان، کور کمانڈر، منتحب نمائندوں اور ضلع کرم کے تمام نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بنیادی مسئلے کو ہر فورم پر اٹھایا جائے۔ اور اس وقت تک اپنی آواز بلند کرتے رہیں۔ جب تک وزیراعظم اسکی تعمیر کا باقاعدہ اعلان نہیں کرتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں