شیعہ مسنگ پرسنز موومنٹ کا لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ

کراچی (ڈیلی اردو) شیعہ نسل کشی اور شیعہ جبری گمشدگیوں کی تازہ لہر کے خلاف 31 مارچ بروز اتوار شام 4 بجے کراچی پریس کلب پر (شیعہ مسنگ پرسنز موومنٹ) کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ رکھا گیا جسمیں لاپتہ عزاداروں کی تمام فیملیز، عزاداروں، اور انسانی حقوق و سول سوسائٹی کے رہنماوں نغمہ شیخ، ثمر و دیگر نے شرکت کی۔

شیعہ مسنگ پرسنز موومنٹ کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق مظاہرین شیعہ نسل کشی اور شیعہ جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور ملک میں آئین کے آرٹیکل 10 کے عملی نفاز کا مطالبہ کرکے رات کی تاریکی میں پولیس اور خفیہ اداروں کی جانب سے بغیر وارنٹ شیعہ آبادیوں پر گرفتاریاں کرکے چار دیواری اور چادر کا تقدس پامال کرنے اور غائب کرنے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔

شیعہ مسنگ پرسنز موومنٹ کے چیئرمین راشد رضوی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو کالعدم تکفیری دہشتگرد جماعتوں کو مکمل آزاد چھوڑا دیا ہے تاکہ وہ شیعہ کافر کے نعرے مار کر جس شیعہ کو جب چاہیں قتل کردیں اس پر ظلم یہ ہے کہ علی رضا عابدی کے قتل سے لیکر ابتک جتنی شیعہ کلنگ کی CCTV وڈیوز منظر عام پر آئیں ہیں کسی دھشتگرد کو ابتک گرفتار نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یا تو ریاستی ادارے نااہل ہیں یا پھر ان دہشت گردوں کی سرپرستی خود ریاستی ادارے کررہے ہیں اور یہی بات عالمی ادارے بھی مسلسل بول رہے ہیں۔ مارچ 2019 کے مہینے میں راولپنڈی، کوئٹہ، کراچی، DIK میں 8 شیعہ قتل کردیئے گئے اور ایک بھی قاتل گرفتار نہیں ہوا جبکہ کراچی میں لاپتہ عزاداروں کی جگہ جگہ بھوک ہڑتالوں کے باوجود مزید ماورائے عدالت جبری گمشدگیاں بڑھ گئی ہیں اور صرف مارچ 2019 کے مہینے میں ریاستی اداروں نے شیعہ آبادیوں گلبہار، دستگیر، شاہ فیصل کالونی، کورنگی، ملیر جعفر طیار پر لشکر کشی کرکے مذید 8 شیعہ گھروں سے اغوا کر کے لاپتہ کردیئے ہیں جسمیں ایک روزنامہ جنگ اخبار کا رپورٹر مطلوب حسین موسوی بھی شامل ہے۔ ہم چیف جسٹس پاکستان اور سندھ بار کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک سے آئین کے آرٹیکل 10 کا جنازہ نکالا جا رہا ہے اور وہ ماورائے آئین جبری گمشدگیوں پر کیوں خاموش ہیں یا پھر صحافی اور جج حضرات اعلانیہ اقرار کردیں کہ ہم اسلئے خاموش ہیں کہ ہمیں بھی اغوا ہوجانے کا ڈر و خوف ہے۔ تاکہ عوام اپنی حفاظت کا خود انتظام کرے۔ ہمیں بتایا جائے کہ یہ ریاست پاکستان ہے یا پھر ریاست غائبستان* ؟ جسے جب چاہے غائب کردیا جاتا ہے اور حکمرانوں سے لیکر پولیس تک سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

شہید علی رضا عابدی کی والدہ بھی احتجاج میں شریک ہوئی انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملت جعفریہ پاکستان کے جھنڈے کا سبز حصہ ہیں ہمیں سفید حصے میں ڈالنے کی سازشیں بند کی جائیں میرے بیٹے کے قاتل آجتک گرفتار نہیں ہوئے۔

سماجی رہنما خالد راو نے اپنے خطاب میں کہا کہ عمران خان کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ سعودی ریال لیکر ایکبار پھر شیعوں اور صحافی حضرات کے خلاف متعصبانہ نوٹیفیکیشن نکال کر صحافی خشوگی کے قتل پر پردہ ڈال دے گی اور دھونس دھمکی کے ذریعے آواز حق کو دبا دے گی تو یہ اسکی بھول ہے اور حکومت یاد رکھے کہ یزید وقت حکومتوں سے حسینی نا تو ڈرتے ہیں اور نا دبتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ریاست مدینہ نہیں بلکہ امیر شام کی حکومت ہے جو لوگ اس یزیدی حکومت کیلئے کوفی اور درباری کردار ادا کررہے ہیں انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گے۔ فروغ عزاداری آرگنائزیشن کے سربراہ حماد رضا بھی احتجاج میں شریک تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں