امریکی کانگریس نے یمن جنگ کی ’حمایت‘ ختم کرنے کا بل منظور کرلیا

واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکی کانگریس نے یمن جنگ کی حمایت ختم کرنے کے لیے بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی کانگریس نے یمن میں سعودی عرب کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگ میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی عسکری حمایت کو قعطی مسترد کردیا۔

اس ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ بل ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس منظوری کے لیے موجود ہے تاہم ان کی جانب سے بل پر ویٹو کیے جانے کا قوی امکان ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے مطابق بل سے ’شدید نوعیت کے آئینی تحفظات‘ جنم لے چکے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کانگرنس نے دہائی پر مشتمل ’جنگی اختیارات کی قرارداد‘ کے خلاف قانونی طریقہ استعمال کرتے ہوئے غیرملکی تنازعات کو روکنے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کی۔

خارجہ امور پر مشتمل کمیٹی کے چیئرمین ایلیوٹ اینجل نے کہا کہ ’کانگریس خارجہ پالیسی کے تناظر میں اپنے آئینی اختیارات کا بھرپور استعمال کرے گی‘۔

خیال رہے کہ یمن میں جنگ پانچویں سال میں داخل ہو چکی اور ہزاروں لوگ جاں بحق جبکہ لاکھوں قحط سالی کا شکار ہیں جسے اقوام متحدہ نے ایسے دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا۔

گزشتہ برس دسمبر میں نیو یارک ٹائمز کہنا تھا کہ یمن جنگ میں امریکا کا ہاتھ ہر جگہ نظر آتا ہے۔

امریکی اخبار نے انکشاف کیا تھا کہ ’امریکا انسانی بحران میں ملوث ہے جس سے شام اور عراق کے حوالے سے خطے اور دنیا میں غیر مستحکم اثرات آئیں گے‘۔

خیال رہے کہ سعودی حمایت یافتہ یمن کی حکومت اور باغیوں کے درمیان خانہ جنگی سے گزشتہ 3 سالوں میں 10 ہزار سے زائد افراد قتل ہوچکے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں کہا گیا تھا کہ ’سامنے آنے والے ہزاروں افراد کی ہلاکت متاثرین کی کل تعداد کا صرف ایک حصہ ہے اور امریکی حکومت حالات خراب کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے‘۔

علاوہ ازیں اگر یمن تنازع کی بات کی جائے تو عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک میں 2014 میں اس وقت تنازع شروع ہوا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھالا اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کردہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

اس کے بعد 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد نے حوثیوں کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا۔

تاہم اس تنازع کی زد میں بڑی تعداد میں عام شہری آئے اور ہیضے کی وبا نے شدت اختیار کی، جبکہ تنازع کی زد میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس کے ابتدائی 6 ماہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروہوں نے 80 لاکھ سے زائد یمن کے شہریوں کو امداد فراہم کی تھی اور ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے، جنہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ ان کی اگلی غذا کہاں سے آئے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں