21

بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن کا قیام

ڈھاکا (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحققیاتی کمیشن شیخ حسینہ کے دور میں لاپتہ کیے گئے افراد سے متعلق تحقیقات کرے گا۔ یہ کمیشن پینتالیس دنوں میں اپنی رپورٹ مکمل کر کے عبوری حکومت کو پیش کرے گا۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت میں سکیورٹی فورسز کے ذریعے شہریوں کی جبری گمشدگیوں کے سینکڑوں واقعات کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ منگل کو دیر گئے ایک سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج معین الاسلام چودھری کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی بنگلہ دیش کے سرحدی محافظوں (بی جی بی) سمیت دیگر نیم فوجی پولیس یونٹوں کی بھی تحقیقات کرے گی۔

جبری گمشدگیوں کے معاملے میں بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) کے نیم فوجی دستے شامل ہیں، جن پر انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کا الزام ہے اور جن پر امریکہ نے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں میں کردار کرنے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ سن 2009 میں حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سکیورٹی فورسز مبينہ طور پر ”600 سے زائد جبری گمشدگیوں‘‘ ميں ملوث رہی ہيں اور تقریباً 100 افراد لاپتہ ہیں۔ حراست میں لیے گئے افراد میں سے اکثر کا تعلق حسینہ کی حریف سیاسی جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند پارٹی جماعت اسلامی سے تھا۔

حسینہ حکومت مسلسل ان الزامات کی تردید کرتی رہی تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ لاپتہ ہونے والوں میں سے کچھ یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران بحیرہ روم میں ڈوب گئے تھے۔ حسینہ پانچ اگست کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہو گئی تھیں۔ انہیں طلباء کی قیادت میں کئی ہفتوں کے احتجاج کے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا اور یوں ان کے پندرہ سالہ دور اقتدار کا خاتمہ کر دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ آر اے بی اور بی جے بی دونوں فورسز کے خلاف ”انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ریکارڈ موجود ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں، تشدد اور ناروا سلوک شامل ہے۔‘‘ نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم بنگلہ دیشی عبوری حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے تحقیقاتی کمیشن کے پاس اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے 45 دن ہوں گے۔

حسینہ کے زیر حراست افراد کی رہائی کے لیے مہم چلانے والے ایک گروپ مائر داک یعنی ”ماؤں کی پکار‘‘ کی کوآرڈینیٹر سنجیدہ اسلام ٹولی نے کمیشن کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ”سب سے اہم بات یہ ہے کہ کمیشن کی پیش کردہ مکمل رپورٹ شائع کرنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی معلومات کو پوشیدہ نہیں رکھا جائے۔‘‘

انہوں نے لاپتہ افراد کی تلاش کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ اس ماہ کے اوائل میں محمد یونس سے ملاقات میں جبری گمشدگیوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹولی کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ کمیشن بلا تفریق ہر خاندان کی بات سنے۔

انہوں نے کہا کہ وہ لاپتہ افراد کی واپسی اور ذمہ داروں کو انصاف کا سامنا کرانا چاہتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق حسینہ کے خلاف احتجاجی تحریک سے لے کر ان کی معزولی تک کے ہفتوں میں 600 سے زیادہ لوگ مارے گئے، تاہم یہ ”ممکنہ طور پر اصل سے کم ‘‘ تعداد تھی۔

حسینہ واجد کے ملک سے فرار کے اگلے دن بہت سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ ڈھاکہ میں ملٹری انٹیلی جنس فورس کی عمارت کے باہر جمع ہو کر اپنے پیاروں کا شدت سے انتظار کرتے رہے تھے لیکن ان زیر حراست افراد میں سے صرف مٹھی بھر کی ہی رہائی کی تصدیق ہوئی ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں