ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرین نے مغرب کی جانب سے مہیا کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل روسی سرزمین پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیے تو یہ نیٹو ممالک کی جانب سے اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔
سینٹ پیٹرزبرگ میں بات کرتے ہوئے پوتن کا کہنا تھا کہ اس سے یوکرین تنازع کی نوعیت یکسر بدل جائے گی۔
روسی میڈیا صدر پوتن کے اس انتباہ کو ماسکو کی جانب سے ایک نئی ریڈ لائن کہہ رہے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مغربی ممالک اور امریکہ اس انتباہ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں یا نہیں۔
دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹامر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں تنازع روس نے شروع کیا ہے اور وہ اسے کسی بھی وقت ختم کر سکتا ہے۔
سٹامر اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ بات چیت کے لیے واشنگٹن میں موجود ہیں۔
سٹامر کا کہنا ہے ’روس نے غیر قانونی طور پر یوکرین پر حملہ کیا۔ روس اس تنازعے کو فوراً ختم کر سکتا ہے۔‘
ماسکو نے چھ برطانوی سفارت کاروں کی اسناد منسوخ کر دیں
دوسری جانب روسی میڈیا کے مطابق ماسکو نے جاسوسی کے شبہے میں چھ برطانوی سفارت کاروں کی اسناد منسوخ کر دی ہیں۔
روسی سکیورٹی سروس ایف ایس بی کا کہنا ہے کہ ان سفارتکاورں پر جاسوسی اور ’روس کی سلامتی کو خطرے‘ میں ڈالنے کا شبہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سفارتخانے کی جانب سے ’متعدد غیر دوستانہ اقدام‘ لیے جانے کے بعد اٹھائے گئے ہیں۔
روسی وزارت خارجہ بھی برطانوی سفارت خانے پر سفارتی کنونشن سے تجاوز کرنے کا الزام لگاتی ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت ایف ایس بی کی رائے سے متفق ہے۔
زاخارووا کہتی ہیں کہ، ’برطانوی سفارت خانے نے بڑے پیمانے پر ویانا کنونشن کی طرف سے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔‘ انھوں نے برطانوی سفارتخانے پر روسی عوام کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔
برطانوی دفتر خارجہ نے ایف ایس بی سکیورٹی سروس کی جانب سے اپنے عملے کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ قرار دیا ہے۔
برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’برطانوی حکومت کی جانب سے پورے یورپ اور برطانیہ میں روس کی ہدایت پر ہونے والی سرگرمیوں کے جواب میں کی گئی کارروائی کے بعد روسی حکام نے گزشتہ ماہ روس میں برطانیہ کے چھ سفارت کاروں کی سفارتی منظوری منسوخ کر دی تھی۔‘
برطانیہ کا کہنا ہے وہ اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں معذرت خواہ نہیں ہیں۔