تل ابیب (ڈیلی اردو/وی او اے) اسرائیل نے منگل کو حماس کے خلاف اپنی جنگ کا دائرہ حزب اللہ تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد لبنانی سرحد کے قریب آباد اسرائیلیوں کی اپنے گھروں کو واپسی ممکن بنانا ہے جو عسکریت پسندوں سے جھڑپوں کے باعث چلے گئے تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ سیکیورٹی کابینہ نے پیر کو دیر گئے اس اقدام کی منظوری دی۔
لبنان کا عسکری گروپ حزب اللہ، غزہ کی فلسطینی عسکری تنظیم حماس کا اتحادی ہے۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے فوراً ہی بعد حزب اللہ نے اپنے اتحادی کی حمایت میں تقریباً روزانہ حملے شروع کر دیے تھے جس کی وجہ سے لبنان سے ملحق شمالی سرحد کے قریب آباد ہزاروں اسرائیلیوں کو اپنا گھربار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا تھا۔
حزب اللہ کو بھی حماس کی طرح ایران کی حمایت حاصل ہے اور اس نے یہ کہہ رکھا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہونے پر ان کا گروپ اپنے حملے روک دے گا۔
اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ بندی کی کوششیں کئی مہینوں سے جاری ہیں۔ امریکی، مصری اور قطری حکام جنگ کے خاتمے کے لیے ایسی شرائط ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر اسرائیل اور حماس دونوں متفق ہو سکیں۔
امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن جنگ بندی کے لیے نظر ثانی شدہ تجویز پر مشرق وسطیٰ کے اہم شراکت داروں سے بات چیت کے لیے منگل کو مصر جا رہے ہیں۔ تاہم نظرثانی شدہ تجویز کے لیے ابھی تک کسی ٹائم فریم کا اعلان نہیں کیا گیاہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ قاہرہ میں بلنکن مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی کے ساتھ مشترکہ طور پر امریکہ مصر اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کریں گے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بلنکن غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنانے، تمام یرغمالوں کی رہائی، فلسطینیوں کے مصائب میں کمی لانے اور وسیع تر علاقائی سلامتی کو فروغ دینے کی کوششوں کے لیے مصری رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔
بلنکن کے اس دورے میں اسرائیل شامل نہیں ہے، تاہم انہوں نے پیر کے روز محکمہ خارجہ کے دفتر میں اسرائیل کے حزب اختلاف کے لیڈر اور سابق وزیر اعظم یائر لیپڈ سے ملاقات کی تھی۔
لیپڈ نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو یرغمالوں کی واپسی اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے معاہدے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت قوم اسرائیل کے زخم اس وقت تک نہیں بھر سکتے جب تک ہم باقی ماندہ تمام یرغمالوں کو وطن واپس نہیں لاتے۔ یہ ہمارے وجود کے لیے ضروری ہے۔
فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کی کوششیں
جنگ بندی اور یرغمالوں کی واپسی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی اور ان کی مشکلات کم کرنے کے اقدامات پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی امداد اور تعمیر نو کے لیے سینئر کو آرڈی نیٹر سکرد گاغ نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ وقت ہمارے ہاتھ سے کھسک رہا ہے۔ ہمیں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالوں کی فوری اور غیر مشروط واپسی اور غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر امداد پہنچانے کے لیے بلا روک ٹوک اور مسلسل رسائی کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امدادی کارروائیوں میں لاقانونیت، دشمنی پر مبنی رویوں اور اسرائیلی حکام کی جانب سے انکار اور تاخیری حربوں کی وجہ سے رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد سے متعلق دفتر کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ غزہ پہنچنے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ اپریل میں روزانہ 169 امدادی ٹرک غزہ پہنچ رہے تھے جب کہ ستمبر کے پہلے 9 دنوں میں یہ تعداد گھٹ کر 62 رہ گئی تھی۔
اسرائیل امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنے سے انکار کرتا ہے۔
اسرائیل حماس جنگ کا آغاز گزشتہ سال 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے ایک بڑے اور اچانک حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کے لگ بھگ یرغمال بنا لیے گئے تھے۔
غزہ میں اسرائیل کی جوابی کاروائیوں میں اب تک 41200 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں کئی ہزار جنگجو بھی شامل ہیں۔ جب کہ غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے حکام یہ کہتے ہیں کہ مرنے والوں کی اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔
امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر کئی مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔