اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ میں قائم غیر سرکاری ادارے کی نئی رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں متعدد افراد توہینِ مذہب کے بے بنیاد الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور اس حوالے سے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کئی ملزمان کو مقدمات کی سماعت کے آغاز سے قبل طویل قید کا بھی سامنا رہتا ہے کیوں عدالتیں مذہبی گروہوں کے دباؤ سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔
امریکہ میں قائم غیر سرکاری ادارے کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس (سی ایف جے) نے پیر کو اس حوالے سے تفصیلات جاری کی ہیں۔ کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس نے 2022 میں پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں توہینِ مذہب کے 24 معاملات کی چھ ماہ تک مانیٹرنگ کے بعد رپورٹ ترتیب دی ہے۔
کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ جن افراد کے مقدمات کی مانیٹرنگ کی جا رہی تھی ان میں سے 15 کے کیسز اس طرح بنائے گئے ہیں اگر ان پر جرم ثابت ہو جائے تو انہیں سزائے موت کا سامنا کرنا ہوگا۔
رپورٹ میں نگرانی کرنے والے ماہرین نے بیان کیا کہ بیشتر کیسز میں انتہائی معمولی پیش رفت ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق عدالتوں میں کیسز کی مجموعی طور پر 252 سماعتیں مقرر ہوئی جن میں سے 217 سماعتوں کو ملتوی کیا گیا۔ اس التوا کے سبب زیرِ حراست افراد کو قید میں وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔
کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس سے وابستہ ایک قانونی ماہر زمران سیموئیل کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ قانونی عمل کو آگے بڑھانے میں تاخیر کی جاتی ہے جب کہ اس کے غیر منصفانہ ہونے اور امتیازی سلوک کا سامنے کرنے کی بھی نشان دہی ہوتی ہے۔ ان کے بقول اس قانون سے خوف بھی پیدا ہوا ہے۔
زمران سیموئیل نے مزید کہا کہ پاکستان کے توہینِ مذہب کے قانون کی موجودہ حالات میں جس طرح عمل در آمد ہو رہا ہے تو اس حوالے سے اشد ضرورت ہے کہ اس میں اصلاح اور نظرِ ثانی کی گنجائش موجود ہے۔
پاکستان میں مذہب یا مقدس ہستیوں کے بارے میں نامناسب الفاظ کے استعمال یا کسی ایسے عمل پر توہینِ مذیب کے قانون کے تحت سزا موت ہے۔ البتہ توہینِ مذہب کے قانون کے تحت آج تک کسی کی موت کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کی رپورٹ میں پاکستان کے توہینِ مذہب کے قانون کو بین الاقوامی معیار، خاص طور پر شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے مطابق نہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس (سی ایف جے) کے چھ ماہ تک ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے زیادہ تر الزامات میں شواہد موجود نہیں ہیں اور ان کیسز میں جو لوگ مدعی بن کر سامنے آئے وہ ان کارروائیوں کے گواہ بھی نہیں تھے۔
رپورٹ کے مطابق بعض معاملات ایسے ہیں جن میں گستاخانہ کلمات یا الفاظ کی شناخت بھی نہیں ہو رہی۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ قانون پر عمل درآمد کے لیے حفاظتی اقدامات موجود ہیں جن کی کی منظوری دینا حکومت کا کام ہے۔ لیکن ان حفاظتی اقدامات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کے مطابق جن افراد پر الزامات لگائے جاتے ہیں ان کو اکثر بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان کی ضمانت کی درخواست بھی رد کر دی جاتی ہے۔ بعد ازاں مقدمے کی سماعت میں بار بار تاریخ دی جاتی ہے کیوں کہ کیس میں گواہ موجود نہیں ہوتے جس کے سبب ان کی قانونی جنگ طویل ہوتی جاتی ہے۔
سی ایف جے نے رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان توہین مذہب کے قوانین کو منسوخ کرے۔ توہینِ مذہب کے الزام میں مقدمات کے اندراج کے لیے معیار کو بلند کیا جائے تاکہ جھوٹے الزامات نہ لگائے جا سکیں اور ان مقدمات میں طویل عدالتی کارروائی کو مختصر کرنے کے لیے اصلاحات کی جائیں۔
اس رپورٹ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل حنا جیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں عدالتیں توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
پاکستانی حکام نے تاحال کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کی رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا پاکستان کے جائزے کا اجلاس آئندہ ماہ ہونے والا ہے۔
پاکستان اس کے توہینِ مذہب کے قوانین پر غیر ملکی تنقید کو متواتر مسترد کرتا رہا ہے۔ اسلام آباد کے مطابق یہ ملک کا داخلی معاملہ ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں ایک شخص کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں اس شخص کو ایک پولیس اہلکار نے دورانِ قید ہی قتل کر دیا تھا۔ قتل ہونے والا ملزم مسلمان تھا۔
دو ماہ قبل پنجاب کے شہر سرگودھا میں ایک 73 سالہ مسیحی شخص پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کرکے تشدد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس شخص کی اسپتال میں دورانِ علاج موت ہو گئی تھی۔
جون میں ہی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک شخص خیبر پختونخوا کے علاقے سوات گیا تھا۔ جہاں ایک مشتعل ہجوم نے اس پر مسلمانوں کی مقدس کتاب کی توہین کا الزام لگا کر تشدد کیا تھا۔ تشدد کے سبب اس شخص کی موت ہو گئی تھی۔