لاہور (ڈیلی اردو/وی او ا ے) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ساہیوال میں پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں 17 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس نے اس مقدمے میں دو مرکزی ملزمان کو عدالت میں پیش کرکے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق مقدمے میں ملزمان کے 15 نامعلوم ساتھیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کی شناخت دوران تفتیش کی جائے گی اور پھر انہیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔
پولیس نے ایک ملزم کا موبائل فون بھی قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا یے جس سے سوشل میڈیا پر مبینہ مواد اپ لوڈ کیا جاتا تھا۔
حکام کے مطابق پولیس فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے بھی رابطہ کر رہی ہے تاکہ قابلِ اعتراض مواد کو ہٹایا جا سکے۔
ساہیوال کے تھانہ کمیر میں درج مقدمے کے مدعی کا تعلق ’تحریک لبیک پاکستان‘ (ٹی ایل پی) سے ہے۔ ایف آئی آر میں مدعی نے الزام لگایا ہے کہ نامزد افراد یوٹیوب چینل کے ذریعے ایسا مواد شیئر کر رہے ہیں جس سے وہ توہینِ مذہب کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس کیس کی تفتیش پولیس کے اعلیٰ افسر کو کرنی ہوگی۔
ماہرِ قانون شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس ایف آئی آر میں لگائی جانے والی دفعات انتہائی سنگین ہیں۔ اس لیے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) سے کم رینک کا افسر اس کیس کی تفتیش نہیں کر سکتا۔
تھانہ کمیر کے ایس ایچ او ظفر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملزم خود ساختہ اسکالر ہے اور وہ پولیس حراست میں اپنے تمام وی لاگز کی تصدیق و تسلیم کر چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم کے پاس کوئی دینی ڈگری نہیں۔
ایس ایچ او کے مطابق پولیس نے ملزم کا موبائل فون قبضے میں لے لیا ہے۔
پولیس نے دونوں گرفتار ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کرکے جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔
ملزمان کو اب 21 نومبر کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔