نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی دباؤ کو نظر انداز کر کے افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کر لیا ہے اور وہ جوہری ہتھیار کے لیے درکار افزودگی سے بہت قریب ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ میں، جسے خبررساں ادارے نے دیکھا ہے، بتایا گیا ہے کہ 26 اکتوبر تک ایران کے پاس 182.3 کلوگرام یورینیم موجود تھا جس کی افزودگی کی سطح 60 فی صد ہے۔ یہ مقدار اگست کی آخری رپورٹ سے 17.6 کلوگرام زیادہ ہے۔
جوہری ہتھیار کے لیے 90 فی صد تک افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے،جب کہ 60 فی صد افزدوگی کو جوہری سطح تک لےجانا تکنیکی طور پر زیادہ دور نہیں ہے۔
جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے (IAEA) کے مطابق نظریاتی طور پر 60 فیصد تک افزودہ 42 کلوگرام یورینیم کو مزید افزودہ کر کے ایک جوہری ہتھیار بنانا ممکن ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حالیہ مہینوں میں غزہ جنگ کے پس منظر میں اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے کے خلاف میزائل حملے کیے ہیں۔
ایران نے گزشتہ ہفتے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی کے تہران کے دورے کے موقع پر اپنے یورینیم کے ذخائر کو 60 فیصد افزودگی تک نہ بڑھانے کی پیش کش کی تھی۔
آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ایرانی عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات میں یورینیم کے ذخائر کی 60 فیصد تک افزدوگی پر بات چیت ہوئی اور تکنیکی تصدیق کے پہلوؤں پر غور کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گروسی کی ایران سے واپسی کے ایک روز کے بعد 16 نومبر کو معائنہ کاروں نے تصدیق کی کہ ایران نے اپنے زیر زمین جوہری مراکز فردو اور نطنز میں یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کرنے کا عمل کو روکنے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
یہ رپورٹ اس ہفتے ویانا میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے باقاعدہ اجلاس سے پہلے سامنے آئی ہے۔
مغرب کا ردعمل
ایک سینئر مغربی سفارت کار نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کی حمایت کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس ہفتے آئی اے ای اے کے بورڈ کے اجلاس میں ایک قرارداد لا رہے ہیں جس میں ایران کی جانب سے تعاون میں عدم دلچسپی پر اسےسرزنش کی جائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کو واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم ایران کو جوابدہ بنانے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اعلیٰ سطح کے افزودہ یورینیم کے ذخائر جمع کر رہی ہے جس کا کوئی قابل اعتماد غیر فوجی مقصد نہیں ہے اور وہ آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون بھی نہیں کر رہی۔
ایک سینئر سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گروسی کے تہران کے دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایران نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی قراردادوں کے جواب میں اپنے جوہری پروگرام میں اضافہ ہی کیا ہے۔
جب کہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیے ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ایران نے ستمبر 2023 میں آئی اے ای اے کے کچھ سینئر معائنہ کاروں پر پابندی لگا دی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جون میں اپنے جوہری مراکز کی نگرانی کے لیے نصب جو کیمرے اور آلات ہٹائے تھے، انہیں دوبارہ نصب کرنے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
گزشتہ ہفتے ایران کے محمد اسلامی نے خبردار کیا تھا کہ اگر آئی اے ای اے کے آئندہ ہونے والے بورڈ کے اجلاس میں ایران کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو تہران اس کا ردعمل دے گا۔ آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ ممالک ایران کے خلاف کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔
ایران کو 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے میں 3.67 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے، 300 کلوگرام تک یورینیم ذخیرہ کرنے اور بنیادی سطح کی سینٹری فیوج مشینیں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو سویلین مقاصد کے لیے تھی اور اس کے بدلے میں ایران پر عائد معاشی پابندیاں نرم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
تاہم ایران نے امریکہ کے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے ایک سال کے بعد آہستہ آہستہ پابندیوں کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا اور یورینیم کی افزودگی کو 60 فیصد تک پہنچا دیا۔